ریاست میں بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری لیکن مجموعی طور پر مہاوکاس اگھاڑی کو زیادہ گرام پنچایتیں حاصل ہوئیں۔ شیوسینا سب سے چھوٹی پارٹی لیکن شندے گروپ بھی ناکام ۔ شیوسینا سے صرف ۴؍ گرام پنچایتیں زیادہ حاصل کر سکا۔ کانگریس کی بھی بہتر کارکردگی۔ بیشتر اہم اضلاع این سی پی کے حصے میں آئے
این سی پی نے کئی اضلاع میں حیران کن طور پر بی جے پی کو دھول چٹائی ہے
مہاراشٹر بھر میں اتوار کو ہوئے پنچایت الیکشن کے ووٹوں کی گنتی پیر کو کی گئی جس میں نتائج بڑے دلچسپ آئے ہیں۔ ہر چند کہ مجموعی طور پر بی جے پی ریاست میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے لیکن شرد پوار کی این سی پی نے اسے کڑی ٹکر دی ہے۔ حیران کن طور پر ادھو ٹھاکرے کی شیوسینااور اسی علاحدہ ہونے والے ایکناتھ شندے گروپ سب سے پیچھے رہے۔ ہر چند کہ ایکناتھ شندے گروپ کو ادھو ٹھاکرے کی پارٹی سے چند سیٹیں زیادہ حاصل ہوئی ہیں۔
خبر لکھے جانے تک ۴۹۵؍ گرام پنچایتوں کے نتائج آچکے تھے جن میں سے بی جے پی کو سب سے زیادہ ۱۴۴؍ مقامات پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ جبکہ مہا وکاس اگھاڑی میں شامل این سی پی کو ۱۲۸؍ سیٹیں ملی تھیں۔ یہ نتائج بتاتے ہیں کہ این سی پی نے بی جے پی کو سخت ٹکر دی ہے۔ یاد رہے کہ این سی پی کو اہم اور بڑے اضلاع میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس کے بعد کانگریس کا نمبر ہے جس کے ہاتھ ۶۲؍ گرام پنچایتیں لگی ہیں۔جہاں تک بات ہے ادھو ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے والی الگ الگ پارٹیوں کی تو اس میں کانٹے کی ٹکر کہی جا سکتی ہے۔ ہر چند کہ ایکناتھ شندے کے پاس شیوسینا سے زیادہ گرام پنچایتیں ہیں لیکن شیوسینا اس سے کچھ ہی قدم پیچھے ہے۔ شندے گروپ کو کل ۴۱؍ گرام پنچایتیں حاصل ہوئی ہیں تو شیوسینا کے حصے میں ۳۷؍ گرام پنچایتوں کا اقتدار آیا ہے۔
مہاوکاس اگھاڑی کی مجموعی تعداد زیاد
یاد رہے کہ اس گرام پنچایت الیکشن کو بی جے پی اور مہا وکاس اگھاڑی کے درمیان طاقت کا مقابلہ سمجھا جا رہا تھا۔ کیونکہ بی جے پی نے شندے گروپ کو الگ کرکے ریاستی حکومت حاصل کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ اب مہاراشٹر میں اب صرف بی جے پی اور ایکناتھ شندے گروپ ہی کامیابی ہوگا لیکن دیکھا جائے تو بی جے پی کا دعویٰ غلط ثابت ہوا ہے ۔ کیونکہ اگر بی جے پی اور شندے گروپ کی تمام گرام پنچایتوں کو ملالیا جائے ان کی مجموعی تعداد ۱۸۵؍ ہو رہی ہے جبکہ این سی پی ، کانگریس اور شیوسینا کی سیٹوں کو ملایا جائے تو کل تعداد ۲۱۷؍ ہو رہی ہے۔یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ان پارٹیوں نے ہر جگہ اتحاد کے ساتھ الیکشن نہیں لڑا تھا ۔
اہم بات یہ ہے مرکز اور ریاست میں برسراقتدار بی جے پی گرام پنچایت الیکشن میں سب سے بڑی پارٹی بن جانےکے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے کوئی بڑی کامیابی حاصل کی ہے کیونکہ این سی پی پہلے کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہو کر سامنے آئی ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ شیوسینا کو اس الیکشن میں بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ اگر ریاست کی اہم پارٹیوں کا تجزیہ کیا جائے تو سب سے کم سیٹیں شیوسینا کے حصے میں آئی ہے لیکن شندے گروپ جسے بی جے پی کا ساتھ حاصل ہے اسے شیوسینا سے صرف ۴؍ گرام پنچایتیں زیادہ حاصل ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ بعض چھوٹی پارٹیوں جیسے مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی اور ونچت بہوجن اگھاڑی کو بھی ایک ایک گرام پنچایت میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
گرام پنچایت الیکشن کا طریقہ
یاد رہے کہ گرام پنچایت الیکشن کا انعقاد اضلاع کے مطابق ہوتا ہے ۔ یعنی ایک ضلع میں مختلف تعلقے ہوتے ہیں۔ ان تعلقوں میں گرام پنچایت ہوتی ہیں۔ گرام پنچایتوں میں مختلف اراکین ہوتے ہیں۔ عوام ان اراکین کو ووٹ دیتے ہیں اور ان کی تعداد کے مطابق ہار جیت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اس طرح سے ایک گرام پنچایت کے مطابق ایک پورے گائوں پر قبضہ ہوتا ہے۔ گرام پنچایت کا سربراہ سرپنچ کہلاتا ہے۔ اس سے قبل گرام پنچایت کے اراکین اپنا سرپنچ منتخب کرتے تھے لیکن اس بار سے عوام کو براہ راست اپنا سرپنچ منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تھا ۔ اس کی وجہ سے عوام میں زیادہ جوش تھا۔ حالانکہ سرپنچ منتخب کرنے کا یہ فیصلہ خود ایکناتھ شندے ہی نے کیا تھا لیکن اس کی وجہ سے ان کی پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اس کے برعکس این سی پی نے بازی مار لی۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ این سی پی کو کئی اہم اضلاع جیسے، پونے، ناسک، ستارا اور کولہاپور وغیرہ میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی نے ایکناتھ شندے کو مراٹھا اور او بی سی کارڈ کھیلنے کیلئے شیوسینا سے توڑا تھا لیکن اس کا دائو الٹا پڑ گیا اور مراٹھا اور اوبی سی ووٹ این سی پی کے کھاتے میں چلا گیا۔