Inquilab Logo Happiest Places to Work

سونالی بنجارے کو بچانے والے شہزاد شیخ کے اہل خانہ ۵۰؍دن بعد بھی مدد کے منتظر

Updated: July 07, 2025, 4:12 PM IST | Saeed Ahmad Khan

 گھاٹکوپر کی رمابائی کالونی کے ایک نالے سے۸؍ سال کی سونالی بنجارہ نام‌ کی لڑکی کو بچاکر انسانیت نوازی کی شاندار مثال قائم کرنے والے شہزاد (۲۸) کے اہل خانہ آج بھی مدد کے منتظر ہیں۔

Shahzad`s widow Rukhsar with her four children. Photo: INN
شہزاد کی بیوہ رخساراپنے چاروں بچوں کے ساتھ۔ تصویر: آئی این این

 گھاٹکوپر کی رمابائی کالونی کے ایک نالے سے۸؍ سال کی سونالی بنجارہ نام‌ کی لڑکی کو بچاکر انسانیت نوازی کی شاندار مثال قائم کرنے والے شہزاد (۲۸) کے اہل خانہ آج بھی مدد کے منتظر ہیں۔ ۵۰؍ دن بعد بھی شہزاد کے اہل خانہ کو مدد نہیں  ملی۔ نہ تو کوئی ان کے گھر پہنچا اور نہ ہی آج تک حکومت نے اہل خانہ کی خبرگیری کی۔ اس کی وجہ سے شہزاد کا خاندان شدید مالی مشکلات میں گھر گیا ہے۔ وہ اپنے گھر کا اکلوتا کمانے والا تھا۔ اس کے زیر کفالت بیوہ اور۴؍ چھوٹے بچے تھے۔ وہ تعمیراتی مزدور تھا اور یومیہ اجرت پر کام کرکے گزر بسر کیا کرتا تھا۔ نمائندہ انقلاب نے رخسار اور اس کے بہنوئی حسنین خان سے بات چیت کی۔ یاد رہے کہ۱۸؍ مئی کی سہ پہر ۳؍ بجے کے قریب شہزاد نے کام سے دوپہر کے کھانے کے لئے وقفہ لیا اور گھر گیا، اسی دوران اس نے پڑوس میں رونے کی آواز سنی۔ باہر جا کر دیکھا تو گیند پکڑنے کے چکر میں نالے میں سونالی نام کی لڑکی گری ہوئی تھی اور وہ اور اس کے اہل خانہ مدد کے لئے پکار رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر شہزاد نے اپنی بیوی سے یہ کہہ کر کہ’ کیا میری بیٹی ہوتی تو میں انتظار کرتا‘ نالے میں چھلانگ لگا کر لڑکی کو نکال لیا لیکن وہ خود بری طرح کیچڑ میں پھنس گیا۔ 
  ضلع بہرائچ (یوپی) سے تعلق رکھنے والا شہزاد، اپنی بیوی رخسار اور چار بچوں شعبان شیخ، شمشیر شیخ، سفیان شیخ اور شبانہ شیخ کے ساتھ رمابائی کالونی میں کرائے کے مکان میں رہتا تھا۔ 
 شوہر کی موت کے بعد اپنی بڑی بہن کے گھر عدت گزار رہی رخسار نے غمزدہ لہجے میں انقلاب کو بتایا کہ ’’کہیں سے کوئی مدد نہیں ملی اور نہ کوئی حال پوچھنے آیا، میں کیا کروں ، ذہن کام‌ نہیں کررہا ہے، میری دنیا اجڑگئی اور میرے بچوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ ‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ’’ میرا بس ایک ہی مطالبہ اور خواہش ہے کہ میرے اور بچوں کے سر پرچھت کا انتظام ہوجائے‌ تاکہ میں ان کی پرورش کرسکوں۔ ‘‘انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’’میرے شوہر مجھ سے کہہ کر لڑکی کو نکالنے گئے تھے کہ تو ٹینشن مت لے، میں آجاؤں گا، مجھے تیرنے آتا ہے لیکن وہ دلدل میں بری طرح پھنس گئے اور ہم لوگوں کو بے سہارا چھوڑ گئے۔ ‘‘رخسار کے مطابق ’’دو بچے پڑھ رہے تھے، شعبان پہلی میں تھا اور شمشیر سینئر کے جی میں مگر پیسہ کوڑی نہ ہونے سے پڑھائی روک دی ہے، مجبوری میں کیا کروں۔ کوئی انتظام ہوگا تبھی میں گھاٹکوپر جانے کے تعلق سے سوچوں گی۔ ‘‘ 
 رخسار کے بہنوئی حسنین خان، جو دادر میں ایک الیکٹرانک دکان پر سیلز مین ہیں، نے انقلاب سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’شہزاد نے گہرے نالے میں چھلانگ لگانے کے خطرات کے بارے میں ذرا بھی نہیں سوچا تھا، آج اس کا اپنا خاندان بہت مشکل میں ہے۔ حکومت کو اس کے خاندان کے لئے کچھ کرنا چاہئے لیکن اب تک کوئی نہیں آیا۔ ‘‘حسنین خان نے یہ بھی بتایا کہ ’’رمابائی کالونی کے مقامی کارپوریٹر نے اپنے ایک کارندے کو بھیجا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ لانا، دیکھوں گا، بس، اس کے سوا کچھ نہیں ہوا اور نہ ہی کہیں سے مدد ملی۔ ‘‘
  مذکورہ نوجوان کے خاندان کو درپیش مشکلات کے پیش نظر سماجی خدمت گار سعید خان نے وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس کو خط لکھ کر شہزاد کے خاندان کے لئے گرانٹ منظور کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’شہزاد نے ذرا بھی نہیں سوچا کہ یہ ایک غیر مسلم لڑکی ہے، اس کی جان بچانے کے لئے اپنی جان دے دی۔ اس نے انسانیت کی ایک عظیم مثال قائم کی ہے۔ اس کا خاندان فوری مدد کا مستحق ہے۔ شہزاد نے انسانیت دوستی کی روشن مثال قائم کی ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ‘‘ ان کے مطابق ’’اسوسی ایشن فار مسلم پروفیشنلز (اے ایم پی) کے ذریعے بھی متاثرہ خاندان کی مالی مدد کے لئے کوشش کی جارہی ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK