Inquilab Logo

سلمان ازہری کی حمایت میں جمع ہونے والوں میں گرفتاری کا خوف

Updated: February 07, 2024, 7:31 AM IST | Shahab Ansari and Saeed Ahmed Khan | Mumbai

۵؍ گرفتار شدگان جمعہ تک پولیس تحویل میں ۔ رضااکیڈمی کے سربراہ نے کہا: قانون شکنی کرنے والوں کے سوا کسی اور کی گرفتاری نہ ہو ، اعلیٰ افسران سے جلد ملاقات کا اعلان

After the arrest of Salman Azhari, the people who gathered outside the Ghatkopar police station are also feared to be arrested.
سلمان ازہری کی گرفتاری کے بعد جو لوگ گھاٹکوپرپولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہوئے تھے، ان کی بھی گرفتاری کا اندیشہ ہے۔

گجرات پولیس کے ذریعے حراست میں لئے گئے مفتی سلمان ازہری کی حمایت میں گھاٹکوپر پولیس اسٹیشن میں جمع ہونے والوں میں سے ۵؍گرفتار شدگان کی ضمانت کے لئے جہاں وکلاء مختلف طریقے سے کوشش کررہے وہیں رضا اکیڈمی اور سنی جمعیۃ علماء بھی کوشاں ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ اتوار کی شب میںمفتی ازہری کے حامی اس مجمع کے تعلق سے ہے جس کے بارے میںپولیس نے اپنی ایف آئی آر میں ۹۰۰؍ تا ایک ہزار افراد کے جمع ہونےکے بارے میںلکھا ہے۔ پولیس کی ایف آئی آر میں۱۱؍ افراد کو نامزد کیا گیا ہے ، ان کی تلاش جاری ہےجبکہ  ۵؍ملزمین پہلے ہی حراست میںلئے جاچکے ہیں۔ جمع ہونے والو ں میںسے دیگر کےتعلق سے پولیس نے نام تو نہیںلکھا ہے لیکن ان سب کو بھی نامعلوم افراد کے طور پرایف آئی آر کا حصہ بنادیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ  عوام میںخوف پایا جارہا ہے اورانہیں یہ اندیشہ ہے کہ کسی بھی وقت پولیس ان کوپکڑسکتی ہے۔
  سعید نوری سے اس بابت یہ استفسارکرنے پرکہ آپ لوگ مجمع میںشامل افراد کو بچانے کے لئے کیا کررہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ’’ یہ اہم مسئلہ ہے، اس کے لئے باہمی مشورے میں طے کیا جائے گا اور اعلیٰ پولیس افسران سے ملاقات کی جائے گی۔یہ سچ ہےکہ لوگ خوفزدہ ہیں اور انہیں یہ ڈر ہے کہ کہیںان کوبھی پکڑ نہ لیا جائے ۔‘‘ 
 انہوں نےیہ بھی بتایا کہ ’’ایڈوکیٹ کیف کے ذریعے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ لوگو ںکونوٹس بھی دیاجارہا ہے اوراس میںمحض گھاٹکوپر کے لوگ ہی شامل نہیںبلکہ گوونڈی وغیرہ میںبھی لوگوں کو نوٹس دیا جارہا ہے۔‘‘ انہوںنے یہ بھی بتایا کہ’’ پتھر پھینکنے والے یا قانون توڑنے والوںکی کوئی حمایت نہیںکررہا ہے لیکن جنہوں نےکچھ نہیںکیا ہے ،محض پولیس اسٹیشن میں ان کی موجودگی کی بنیاد پر ان کا نام شامل کیا گیاہے توایسے لوگوں کوگرفتاری سے بچانے کےلئے اعلیٰ پولیس افسران سے ملاقات کی جائے گی اور ضرورت پڑی تو حکومت کے ذمہ داران سے بھی بات چیت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘‘ 
سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے شناخت کی کوشش 
 پولیس کی جانب سے جہاں ایک طرف گرفتار کئے گئے ملزمین سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے،وہیں  دوسری طرف نامزد ملزمین کے علاوہ مجمع میںشامل افراد کے تعلق سے بھی ملزمین سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے کہ وہ ان کوجانتے ہیں یا نہیں تاکہ ان کی گرفتاری میںآسانی ہوسکے۔
 پولیس کی جانب سے یہ بتایا گیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میںیہ دیکھا جارہا ہے کہ کون اُکسا رہا ہے؟، کس نے کیا حرکت کی ہے اورکس نے نعرے بازی وغیرہ کی ہے؟اسی کی بنیاد پرآگے بھی کارروائی کی جائے گی۔
گرفتار شدگان پولیس تحویل میں بھیجے گئے
 مفتی محمد سلمان ازہری کی گرفتاری کے خلاف احتجاجاً پتھرائو کرنے کے الزام میں گرفتار کئے گئے افراد کو منگل کو وکھرولی کی مجسٹریٹ عدالت نے ۹؍ فروری تک کیلئے پولیس کی تحویل میں بھیج دیا۔
 ایڈوکیٹ عارف صدیقی اور کیف مجاور نے گرفتار شدگان کو پولیس تحویل میں دیئے جانے کی سخت مخالفت کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ پولیس نے ان پانچوں افراد کو گرفتار کرتے وقت سپریم کورٹ کے احکامات کی پاسداری نہیں کی تھی اس لئے انہیں پولیس تحویل میں نہیں دیا جانا چاہئے۔
 ان وکلاء نے عدالت میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ پولیس نے گرفتار شدگان پر بغیر سوچے سمجھے کچھ بھی الزامات عائد کردیئے ہیں۔ مجسٹریٹ ڈی ٹی پاٹل کے روبرو وکلاء نے نشاندہی کی کہ ایف آئی آر میں دفعہ ۳۳۳ (سرکاری ملازم کو اس کے فرائض کی انجام دہی سے روکنے کیلئے اسے شدید چوٹ پہنچانا) کا بھی اطلاق کیا گیا ہے۔
  وکلاء نے اپنے دلائل میں کہا کہ ریمانڈ کی درخواست میں پولیس نے ۹؍ پولیس افسران و اہلکاروں کی فہرست درج کی تھی جنہیں زخمی بتایا گیا  لیکن پہلے ریمانڈ میں ان میں سے کسی کی بھی طبی جانچ کی رپورٹ پیش نہیں کی گئی تھی۔ جب سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن کا حوالہ دے کر گرفتار شدگان کو ایک دن کی عدالتی تحویل میں بھیجا گیا تب ان پولیس اہلکاروں نےایک دن کے وقفہ سے منگل کی صبح اپنی طبی جانچ کروائی اور صرف ایک اے سی پی اور ایک پولیس اہلکار کو زخمی بتایا گیا ہے۔
 ایڈوکیٹ عارف صدیقی اور کیف مجاور نے عدالت میں بحث کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے بعد میں سوچ سمجھ کر ایسی چیزیں ریکارڈ پر لائی ہیں جن سے ملزمین کو پولیس تحویل میں بھیجا جائے۔
 ایڈوکیٹ کیف کے مطابق گرفتار شدگان میں ۲؍ طلبہ، ایک گداگر، ایک ٹیکسی ڈرائیور اور ایک فوڈ ڈیلیوری کرنے والا شخص شامل ہیں۔
 پولیس کے  جواب میں وکلاءکا موقف 
  پولیس کے مطابق ان لوگوں کو تصویروں سے شناخت کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا ہے کیونکہ وہ پتھرائو کررہے تھے لیکن وکلاء کے مطابق تمام گرفتار شدگان کی تصویریں دن میں لی گئی تھیں اور تصویر میں تمام لوگ پُر امن طریقے سے کھڑے نظر آرہے ہیں۔ مزید یہ کہ پولیس کو اپنے پولیس اسٹیشن کے پاس سے ایک بھی پتھر نہیں ملا جس سے یہ بات ثابت ہوسکے کہ یہاں پتھرائو ہوا تھا، بہر حال مجسٹریٹ نے پولیس کو تفتیش کا موقع فراہم کرنے کی غرض سے گرفتار شدگان کو جمعہ تک پولیس تحویل میں بھیج دیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK