• Wed, 08 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہم فلسطینیوں کیلئے امیتابھ بچن وہ ہیرو تھے جن سے مزاحمت کی تحریک ملتی تھی

Updated: October 08, 2025, 4:10 PM IST | Abdullah M. Abu Shawesh

امیتابھ کی کہانیوں میں ہمیں اپنی کہانی نظر آتی، وہ جب ماں کی توہین کا انتقام لیتے تویوں معلوم ہوتاجیسے ہماری ماؤں کا انتقام بھی لے رہے ہوں۔

Amitabh Bachchan in a scene from the film. Photo: INN
امیتابھ بچن فلم کے ایک منظر میں۔ تصویر: آئی این این
فلسطین میں  ۱۹۴۸ء  کے سانحہ عظیم  ’نکبہ‘ کے بعد رفیوجی کیمپوں میں پیدا ہونےاور وہیں  پرورش پانے والے لاکھوں  فلسطینیوں  کی طرح  میری کہانی بھی  جہدمسلسل اور زندہ رہنے کی کوششوں کے متعدد ابواب پر مشتمل ہے۔ 
میری نسل   ایک لحاظ سے ’خوش قسمت‘‘ تھی ۔  ہم  اُن لوگوں کی زبانی کہانیاں سن کر  بڑے ہوئے جنہوں نے وہ کھوئے ہوئے گاؤں اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔  وہ ہر درخت، ہر پتھر، ہر گلی کو پہچانتے تھے۔ وہ اس امید اور یقین  کے ساتھ نکلے تھے کہ ایک دن واپس اپنے گھروں کو لوٹ کر آئیں گے۔ہمیں یافا، عکّا اور حیفہ کی یادیں اورکہانیاں   ان  سے وراثت میں ملیں اور اس وراثت میں ناانصافی کا شدید احساس  بھی  ملا  جو ہم اپنی ہڈیوں تک میں بسا ہوا محسوس کرتےہیں۔
ہم اسی یقین کے ساتھ بڑے ہوئے کہ ایک دن کوئی ہیرو ، کوئی نجات دہندہ  آئے گا جوہمیں آزاد کرائے گا۔یاسر عرفات یقیناً ہمارے لئے سب سے بڑے ہیرو تھے مگر ہمیں  جواہر لال نہرو، چے گویرا اور  پیٹریس لومومبا جیسے عالمی لیڈروں سے بھی تحریک ملتی تھی اور ہاں  امیتابھ بچن بھی ہم میں امیدیں پیدا کر دیتے تھے۔ ہماری نسل کیلئے امیتابھ صرف اداکار نہیں بلکہ ہیرو تھے، ایک کرشماتی شخصیت کا حامل دلیر ہیرو جو  انصاف کا پیکر تھا۔ فلموں میں وہ ہمیشہ زمین سے اٹھ کر ناانصافی کے خلاف لڑنے والا کردار ہوتے،  جو اپنی ماں کے وقار کا دفاع کرتا ،اپنے اہل خانہ کی ذلت کا بدلہ لیتا، بدعنوان پولیس اہلکاروں کے خلاف مزاحمت کرتا،   غریبوں کیلئے کھڑا ہوتا، ظلم کے خلاف بغاوت کرتا ، جوپیارو محبت، مستقبل  اوراس کی امیدوں کیلئے نغمے گاتا اور  رقص کرتا تھا۔ ہمارے لئے وہ ایک ایسا یتیم لڑکا تھے جو بڑا ہوکر انصاف کا مجاہد بنتا ہے،ایک ایسا باغی جو مظالم کے خلاف چیلنج تھا، ایک عاشق جو محبت کی پاکیزہ ترین صورت کا مظہرتھا۔ وہ ہماری زبان میں بولتے اور  ہمارے دلوں کی ترجمانی کرتھے تھے۔ ہم ان جیسا بننے کا خواب دیکھتے تھے۔ 
امیتابھ نے ہمیں  برائی پر اچھائی کی  فتح  اورانصاف کے حصول کی امید دی،  یہ وہ چیزیں ہیں جن  سے فلسطینی دہائیوں سے محروم ہیں۔وہ ہماری  خاندانی قدروں، قربانیوں اور ہمت و ولولہ کی عکاسی کرتے تھے۔
  اسکرین پر اُن کی  چند گھنٹوں کی فلم کے بعد حالانکہ قبضے، جلاوطنی اور  ہجرت کی تلخ حقیقت ہمارے سامنے منہ پھاڑے کھڑی ہوتی تھی مگر فلم کے دوران عارضی طور پر ہی سہی ہمیں  اطمینان وسکون، جلاوطنی کے کرب سے راحت اور رفیوجی کیمپ کی تکلیف دہ زندگی سے نجات سی محسوس ہوتی تھی۔ 
امیتابھ کی کہانیوں میں ہمیں اپنی کہانی نظر آتی۔ ہمارے  باپ دادا کو مارا گیا، بے عزت کیاگیا اور انہیں  ان کے گھروں سے نکالا گیا۔  وہ(امیتابھ)  جب فلم میں ظالموں کے خلاف کھڑے ہوتے، اپنی ماں کی توہین کا بدلہ لیتے، تو ہمیں لگتا جیسے وہ ہماری ماؤں کی بھی بے عزتی کا بدلہ لے رہے ہیں۔  وہ ہمارے زخموں پر  مرہم بن جاتے، ایک خواب جیسی راحت  ملتی جو  لمحہ بھر کو سہی مگر غم وطن کو ہلکا کر دیتی۔جب بھی وہ کسی منظر میں غریب عورت یا کمزور مزدور کے دفاع میں اٹھ کھڑے ہوتے تو سارا سینما ہال تالیوں اور سیٹیوں سے گونج اٹھتا۔ ہمیں لگتا، جیسے نجات دہندہ آ گیا۔ ہم اس وقت تک تالیاں بجاتے جب تک تھک نہ جاتے۔  اُس وقت  احساس نہیں  ہوتا تھا مگر دراصل وہ ہماری دیرپا محرومیوں کا انتقام لےرہے تھے۔
غزہ میں امیتابھ کے پوسٹر ہر جگہ لگے ہوتے تھے، وہ  تصویر جس میں وہ مگرمچھ پکڑے ہیں، یا وہ جس میں انہوں  نے سرخ ٹی شرٹ پہن رکھی ہے۔ کسی بھی نوجوان فلسطینی کے کمرے کی دیوار بغیر امیتابھ کے پوسٹر کے ادھوری لگتی تھی۔ان  کا بال بنانے کا، بیچ کی مانگ والا لہراتا اسٹائل، غزہ میں ہر نوجوان کا خواب  تھا۔  امیتابھ ہمارے لئے صرف اسٹائل نہیں تھے ، وہ ہماری قومی شناخت کا حصہ بن گئے تھے۔   اس وقت ہمیں نشانہ بناتے، مارتے اور پیٹتے ہوئے اسرائیلی فوجی  جو کچھ کہتے تھے وہ ہم کبھی نہیں  بھول سکتے۔ وہ کہتے تھے، ’’امیتابھ بچن بننے کی کوشش کررہے ہوکیا؟‘‘  وہ جب ہمارے گھروں میں گھستے تو پہلے دیواروں سے امیتابھ کے پوسٹر پھاڑ تے، جیسے ان  کی تصویر ہی بغاوت کی علامت ہو۔ مگر ہم وہ پوسٹر دوبارہ لگالیتے۔ ہم اپنے بال ویسے ہی سنوارتے جیسے امیتابھ کے بال تھے ہم ان کی فلموں کے ساتھ خواب دیکھتے تھے، وہ ..... وہ ہمارے لئے صرف اداکار نہیں تھے بلکہ اس بات کا ثبوت تھے کہ ناانصافی کے درمیان بھی اور اس بات کا حوصلہ کہ ہم خود کو بھی ہیرو کے طو رپر دیکھ سکتے ہیں۔ 
چند ماہ قبل، جب صدر محمود عباس نے مجھے ہندوستان میں فلسطین کا سفیر نامزد کیا، تو غزہ سے دوستوں  کے پیغام آنے لگے، کہ ’’تو پھر تم اب  امیتابھ بچن کے ملک جا رہے ہو!‘‘ہماری نسل کیلئے جسے سفر کے حق سے محروم کردیا گیاتھا، جو دنیا کو صرف’’غزہ کی کھلی جیل‘‘ کی حد تک جانتے  تھے،   امیتابھ بچن  ہی ہندوستان کی علامت تھے۔ وقت گزرتاگیا ہے۔ میری زندگی اب غزہ کے سینما گھروں سے بہت دور  ہو چکی ہے۔ اب ہم فلمیں پہلے جیسی دلجمعی سے نہیں دیکھ پاتے۔ میں جس طرح  پہلے فلمیں دیکھتا تھا،اب نہیں دیکھتا۔ میری نسل کے  ان لوگوں کیلئے جنہیں جنگ کی مشین نے زندگی کے ایک اوردن کی مہلت تو دیدی ہے مگر اس میں تفریح کیلئے وقت نہیں ہے مگر اب بھی وہ فلمیں ہمیں یاد ہیں۔’’امر، اکبر، انتھونی‘‘  اور’’کالیا‘‘ کی کہانی میں جو قدریں تھیں اور جو کچھ اُن کی ’’اینگری ینگ مین ‘‘کی شبیہ نے پیش کیا،  وہ سب آج بھی ہم میں زندہ ہے۔ان کہانیوں نے اُن خوابوں کی نمائندگی کی جو ہم نے کبھی دیکھے تھے اور ہمیں وہ یقین عطا کیا جو آج بھی ہمارے دل کے قریب ہے کہ ’’ایماندار، محب وطن اور بہادر لوگ زمین  سے دوبارہ اُٹھ سکتے ہیں۔‘‘ بڑی حدتک یہی  فلسطین کی کہانی بھی ہے۔  (مضمون نگار ہندوستان میں فلسطین کے سفیر ہیں۔بشکریہ: انڈین ایکسپریس)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK