Inquilab Logo

جواہر لال یونیورسٹی کے سابق طالب علم ہیم مشرا ۱۰؍ سال بعد جیل سے رہا

Updated: April 27, 2024, 9:04 PM IST | New Delhi

جواہر لال یونیورسٹی کے سابق طالب علم ہیم مشرا ۱۰؍ سال بعد جیل سے رہا ہوئے ہیں۔ خیال رہے کہ انہیں۲۰۱۳ء میں نکسل وادیوں اور ما ؤ نوازوں کے ساتھ مبینہ طور پررابطےمیں ہونے کی وجہ سے حراست میں لیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجھے میرے یہ ۱۰؍ سال کوئی بھی نہیں  لوٹا سکتا لیکن ہمیں کسی بھی قیمت پر ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے۔‘‘

Hem Mishra can be seen in a blue shirt. Image: X
نیلی شرٹ میں ہیم مشراکو دیکھا جا سکتا ہے۔ تصویر: ایکس

نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم ہیم مشرا نے ۱۰؍ سال بعد جیل سے رہا ہونے کے بعد کہا کہ ’’مجھے میرے یہ ۱۰؍ سال واپس نہیں مل سکتے ہیں۔‘‘ خیال رہے کہ انہیں ۲۰۱۳ء میں مبینہ طور پر ماؤ نوازوں کے ساتھ تعلق ہونے کیلے حراست میں لیا گیا تھا۔ ہیم مشرا، یونیورسٹی کے ٹیچر جی این سائی بابا اور دیگر ۴؍ افراد پر نکسل وادیوں کے ساتھ رابطے میں ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور یو اے پی اے ایکٹ کے تحت انہیں مجرم قرار دیا گیا تھا۔ سائی بابا، دیگر ۴؍ افراد سمیت ہیم مشرا کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ 

یہ بھی پڑھئے: فلسطین: نوزائیدہ بچی صابرین الجودا کا پیدائش کے ۵؍ دن بعد انتقال

۵؍ مارچ کو بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بینچ نے مشرا، سائی بابا اور ان کے ساتھ ۴؍ افراد کو بری کیا تھا۔ ۷؍ مارچ کو مشرا کولہاپور سینٹرل جیل سے رہا ہوئے تھے اور غازی آباد کے ویشالی میں ۱۰؍ سال بعد اپنے گھر لوٹے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجھے کچھ معاملات پر حکومت سے اختلاف ہےوہ اس لئے کہ ہمیں سزا دی گئی اور ایک دہائی سے زیادہ وقت سلاخوں کے پیچھے گزارنے پر مجبور کیا گیا۔ ہمیں ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہےورنہ ہم سے ہمارے حقوق چھین لئے جائیں گے۔ یہاں تک کہ کسی چیز کارسک لینا پڑے لیکن ہمیں بولنے کی ضرورت ہے۔ 

مشرا نے جیل سے رہا ہونے کے بعد اپنی تعلیم دوبارہ جاری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ لیکن مجھے یہ طے کرنا ہوگا کہ مجھے کیا پڑنا ہے۔ خیال رہے کہ ۴۳؍ سالہ مشرا نے حراست میں لئے جانے کے وقت جواہر لال یونیورسٹی میں چائنیز زبان کے کورس کا تیسرا سال مکمل کیا تھا اور اس وقت ان کی عمر ۳۲؍ سال تھی۔ اس سے پہلے انہوں نے اتراکھنڈ سے ماس کمیونکیشن میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما کیا تھا۔
ان کے خاندان کا تعلق اتراکھنڈ کے الموڑہ سے ہے۔ انہوں نےمزید بتایا کہ ’’جب میں نے ۱۲؍ ویں جماعت کا امتحان کامیاب کیا تھاتب اتراکھنڈ کو ریاست کادرجہ دینے کیلئے تحریک جاری تھی اور اس بارے میں بات چیت جاری تھی کہ کس قسم کاریاست کاتصور کیا جائے؟ اس کے بعد میں نے جواہر لال یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں کا کیمپس متحرک تھا۔ وہاں طلبہ کو ادی واسی، دلت ، اور سماجی انصاف کے معاملات پرلوگ اپنی رائے پیش کرتے تھے۔
۲۰۱۲ء میں وہ ڈاکٹر اور سماجی کارکن پرکاش آمٹے سے ملنے کیلئے مہاراشٹر کے گڑ چڑولی روانہ ہوئے تھے جہاں انہیں حراست میں لیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’وہ صحت کے معاملے میں ادی واسی افراد کے ساتھ کام کر رہے تھے اور وہ اس ضمن میں ہی پرکاش آمٹے سے ملنا چاہتے تھے۔مجھے حراست میں لئے جانے کے۳؍ دن بعد تک مجھے کچھ بھی نہیں بتایا گیا تھا۔ وہ مجھ سے بار بار دہلی میں نکسل وادیوں کی تحریک اور احتجاج کے بارے میں ہی سوال کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھئے: تمل ناڈو: آلودہ پانی پینے کے سبب متعدد بچے بیمار

بعد ازیں انہیں ناگپور جیل بھیج دیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’جیل پہنچنے کے تین ماہ بعد ہم نے احتجاج کئےاور متعدد مطالبات کئے جس کے بعد ہمیں انڈا سیل میںبھیج دیاگیا۔ یہاں میں نے ۲؍ سال گزارے تھے۔ ہر سیل میں ایک ہی قیدی ہوتا تھا اور اپنے اطراف اور اپنے قریب دیگر سیل میں قیدیوں کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ہم اسے جیل کے اندر ایک جیل کہیں گے۔
مشرا کو ۲۰۱۵ء میں جیل سے ضمانت مل گئی تھی لیکن ۲۰۱۷ء میں انہیں دوبارہ مجرم قرار دیا گیاجس کے بعد وہ دوبارہ ناشک جیل لوٹ گئے تھے۔ بعد ازیں کولہا پور جیل جانے سے پہلے وہ امراوتی اور ناشک کی دیگر جیلوں میں داخل کئے گئے تھے۔ 
انہوں نے کہا کہ ’’اخبارات اور کتابیں ہی میرے ساتھی تھے۔ میں نے مراٹھی سیکھی اور دیگر قیدیوں کو مراٹھی، ہندی اور انگریزی سکھانےمیں مدد کی۔ میں دہلی چائنیز سیکھنے آیاتھا اور مراٹھی سیکھ کر لوٹا۔ ہیم مشرا ریٹائرڈ اسکول ٹیچر کے ڈی مشرا اور مادھوی دیوی کی بیٹے ہیں اوران کے تین بڑے بھائی بہن ہیں۔ان کی والدہ مادھوی(۷۰؍) نے کہا کہ ’’ہماری زندگی تباہ ہو گئی تھی اور ہم نے ۱۰؍ سال تک یہ اذیت سہی ہے۔ہیم کو کچھ غلط کرنے کی وجہ سے حراست میں نہیں لیا گیاتھا ۔ اس نے غریبوں کیلئے آواز اٹھائی تھی اور ان کے مسائل کو اٹھایا تھا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK