Inquilab Logo

جرمنی: اسکولوں میں مسلم مخالف واقعات اور سرگرمیوں میں اضافہ

Updated: March 18, 2024, 8:52 PM IST | Berlin

جرمنی کے دارالحکومت برلن میں قائم اے ڈی اے ایس کی رپورٹ کے مطابق اسکولوں میں مسلم مخالف واقعات میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف بیانیہ اور دائیں بازو کی سیاسی جماعت کے ذریعے ان کے خلاف مہم نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فرانس کے بعد یورپ میں سب سے بڑی مسلم آبادی والے ملک جرمنی میں غزہ جنگ کے بعد اس قسم کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

برلن میں قائم حقوق کے ایک گروپ ‏اے ڈی اے ایس کی رپورٹ کے مطابق انتہائی دائیں بازو کے بیانیے، اور مشرق وسطیٰ میں ہونے والی حالیہ پیش رفت کے سبب جرمنی کے اسکولوں میں مسلم مخالف واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ‏ ‏اے ڈی اے ایس کی سربراہ اور ڈائریکٹر عالیہ یگانے ارانی نے انادولو کو بتایا کہ انسداد امتیاز مرکز کو حالیہ مہینوں میں طلبہ کے ساتھ ان کے والدین کی جانب سےبھی مسلم مخالف حرکات، توہین اور زبانی طور پر ہراساں کئے جانے کی زیادہ سے زیادہ شکایات موصول ہوئی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: اقوام متحدہ: ہندوستانی سفیر نے اسلاموفوبیا کے کثیر الجہتی حل کی وکالت کی

انہوں نے کہا کہ ہمیں موصول ہونے والی نصف سے زیادہ شکایات مسلم مخالف نسل پرستی کے واقعات سے متعلق ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جرمنی میں مسلمان کل آبادی کا۶؍سے۸؍ فیصد ہیں، یہ شرح بہت زیادہ ہے۔ برلن میں مقیم یہ گروپ ان طلبہ، والدین، اساتذہ اور اسکول کے عملے کو مشاورت اور مدد فراہم کرتا ہے جنہوں نے امتیازی سلوک کا تجربہ کیا ہے یا اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ ارانی نے کہا کہ ان کو موصول ہونے والی زیادہ تر شکایات سیاہ فام لوگوں کے خلاف نسل پرستی اور مسلم مخالف نفرت انگیز جرائم اور امتیازی سلوک کے واقعات پر مبنی ہوتی ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ مسلم مخالف جذبات نہ صرف مسلم طلبہ بلکہ ہر اس شخص کو متاثر کر رہے ہیں جنہیں مسلمان سمجھا جاتا ہے۔ تقریباً ۲۰؍ فیصد معاملات واضح طور پر مسلم مخالف نسل پرستی کے بارے میں ہیں۔ ارانی کا کہنا ہے کہ ان واقعات میں کچھ اساتذ بھی شامل ہیں جو مسلم مخالف تاثرات استعمال کرتے ہیں، یا لڑکیاں، اور خواتین کے ساتھ ان کے اسکارف کی وجہ سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ مسلم طلبہ کے خلاف حلقہ بندی کی جاتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اسلاموفوبیا مخالف دن: یو این جنرل اسمبلی میں اس مسئلہ پر اظہارِ تشویش

ارانی کے مطابق ان کو موصول ہونے والی شکایات میں سے تقریباً ۴۰؍ فیصد کا تعلق ان سے ہے جو اپنے نام، ظاہری شکل یا حلیہ کی وجہ سے مسلمان نظر آتے ہیں، لیکن جو بالکل بھی مذہبی نہیں ہیں، شاید مسلمان بھی نہیں ہیں۔ ا نہوں نے نشاندہی کی کہ مسلم مخالف نسل پرستی کی دوسری شکلیں ان لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔ اے ڈی اے ایس کے اندازوں کے مطابق، اسکولوں میں مسلم مخالف واقعات کے اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں کیونکہ بیشتر طلبہ اور والدین ان کی اطلاع حکام یا انسداد امتیازی مراکز کو نہیں دیتے ہیں۔ ارانی نے کہا کہ ’’متعدد معاملات ایسے ہیں جو درج نہیں کئے جاتے ہیں۔ بہت کم لوگ درخواست دیتے ہیں اور ایسے واقعات درج کرواتے ہیں، اسکولوں میں بیشترمعاملات کی اطلاع نہیں دی جاتی ہے اور نہ ہی ان پر توجہ دی جاتی ہے۔ 
انہوں نے نشاندہی کی کہ انتہائی دائیں بازو کے گروہوں کا مسلم مخالف نفرت انگیز پروپیگنڈہ اور تارکین وطن کے بارے میں نسل پرستانہ بیانیہ حالیہ برسوں میں مسلم مخالف واقعات میں تیزی سے اضافے کی وجوہات میں شامل ہیں۔ انہوں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ۷؍ اکتوبر۲۰۲۳ء کو غزہ پر اسرائیلی جنگ شروع ہونے کے بعد درج ہونے والے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ طلبہ نے انہیں اطلاع دی ہے کہ انہیں بیانات دینے، اپنے موقف کا اظہار کرنے، یا اس کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں اس کا اظہار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہےجو اُن کی مرضی کے خلاف ہے۔ اسکولوں میں فلسطینی کیفیہ اسکارف پہننے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ۱۵؍ مارچ: اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن، ایک جائزہ

۸۴؍ملین سے زیادہ آبادی کے ساتھ جرمنی میں فرانس کے بعد مغربی یورپ میں دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں ۵۰؍لاکھ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ ملک کو حالیہ برسوں میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی اور غیر ملکیوں سے نفرت کا سامنا کرنا پڑا، جو انتہائی دائیں بازو اور مسلم مخالف گروپوں کے پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے، جن میں حزب اختلاف کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی، یا اے ایف ڈی بھی شامل ہے۔ 
واضح رہے کہ گزشتہ سال جرمن حکام نے کم از کم ۶۸۶؍مسلم مخالف جرائم درج کئے تھے جن میں سڑکوں پر مسلمانوں کے خلاف زبانی اور جسمانی حملے، اسلامی اداروں کو بھیجے گئے دھمکی آمیز خطوط اور مساجد کو نشانہ بنانے والے آتش زنی کے حملے شامل ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK