Inquilab Logo

سری لنکاکا بحران کتنا سنگین ہے اور اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟

Updated: July 22, 2022, 12:19 PM IST | Agency | Colombo

ناقص معاشی پالیسیوںکا شکار سری لنکا کو عالمی طاقتیں سری امداد دینے پر آمادہ تو ہیں لیکن وہ اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ ان کی دی ہوئی رقم کا کیا استعمال ہوا؟ ایسی صورت میں سری لنکا کا ہر اقدام ان طاقتوں کے زیرنظر ہوگا جس کا اثر خطے پر بھی پڑے گا۔

It is to be seen how far the new leadership and foreign aid will alleviate the problems of the people of Sri Lanka.Picture:INN
دیکھنا یہ ہے کہ نئی قیادت اور بیرونی امداد سری لنکا کے عوام کی مشکلات کو کس حد تک دور کر پاتی ہیں۔ تصویر: آئی این این

سری لنکا کے صد رگوتابایا راجاپکشے ملک سے فرار ہو گئے اور  وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے اب سری لنکا کے نئے صدر ہیں۔ حالانکہ مظاہرین نے  ان دونوں ہی کی رہائش گاہوں پر دھاوا بول دیا تھا اور ان میں سے ایک  کے گھر کو آگ لگا دی تھی۔ اس سے قبل سری لنکا کے وزیر اعظم یہ اعتراف کرچکے تھے کہ ملک کی معیشت تباہ ہوگئی ہے اور حکومت کے پاس خوراک اور ایندھن درآمد کرنے کیلئے بھی رقم نہیں رہی۔تازہ ترین حالات بتاتے ہیں کہ یہاں کے لوگ کھانا چھوڑ رہے ہیں کیونکہ انہیں خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔
بحران کتنا سنگین ہے؟
 سری لنکا کی حکو مت ۵۱؍ ارب ڈالر کی مقروض ہے اور وہ اپنے قرضوں پر سود کی ادائیگی  سے قاصر ہے، قرضے کی رقم تو ایک طرف، سیاحت جو کہ اقتصادی ترقی کا ایک اہم ستون ہے، کورونا  اور ۲۰۱۹ء میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد حفاظتی خدشات کی وجہ سے بکھر گئی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک کی کرنسی ۸۰؍ فی صد تک گر گئی ہے، جس سے درآمدات مزید مہنگی ہو گئی ہیں۔پہلے ہی سے بے قابو افراط زر کی شرح بڑھ رہی ہے جبکہ خوراک کے اخراجات میں ۵۷؍ فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔نتیجتاً ملک دیوالیہ  ہوچکا ہے  اور اس کے پاس پیٹرول، دودھ، کھانا پکانے کی گیس اور ٹوائلٹ پیپر درآمد کرنے کیلئے شاید ہی کوئی رقم ہو۔سیاسی بدعنوانی بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس نے نہ صرف ملک کی دولت کو ضائع کرنے میں اپنا کردار ادا کیا بلکہ یہ سری لنکا کیلئے کسی بھی مالیاتی بچاؤ کو پیچیدہ بناتا ہے۔واشنگٹن میں سینٹر فار گلوبل ڈیولپمنٹ کے پالیسی فیلو اور ماہر اقتصادیات انیت مکھرجی نے کہا کہ آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کی طرف سے کوئی بھی امداد سخت شرائط کے ساتھ آنی چاہئے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ امداد کا غلط استعمال نہ ہو۔پھر بھی، مکھرجی کہتے ہیں کہ سری لنکا دنیا کی مصروف ترین شپنگ لین میں سے ہے، اس لئے اس طرح کے اسٹرٹیجک اہمیت کے حامل ملک کو گرنے دینا کوئی آپشن نہیں ہے۔ ایسے ملک کیلئے یہ حالات ایک تلخ حقیقت ہیں جس کی معیشت بحران سے پہلے تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔
بحران عام لوگوں کو کیسے متاثر کر رہا ہے؟
 سری لنکا زمین کے خط استوا کے گرد ہونے کی وجہ سے تقریباً پورا سال ہرا بھرا رہتا ہے اور عام طور پر کھانے کی اشیا کی کمی نہیں ہوتی،  پھر بھی اب ملک کے لوگ بھوکے  ہیں۔اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ تقریباً ۱۰؍ میں سے ۹؍ خاندان کھانا چھوڑ رہے ہیں یا بصورتِ دیگر اپنی خوراک کو دیرتک چلانے کیلئے بخیل ہو رہے ہیں، جبکہ ۳۰؍ لاکھ ہنگامی انسانی امداد حاصل کر رہے ہیں۔ ادھر ڈاکٹروں نے سازوسامان اور ادویات کی اہم فراہمی حاصل کرنے کی کوشش کیلئے سوشل میڈیا کا سہارا لیا ہے۔ سری لنکا کے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کام کی تلاش میں بیرون ملک جانے کیلئے پاسپورٹ کی تلاش میں ہے۔ سرکاری ملازمین کو تین ماہ کی اضافی چھٹی دی گئی ہے تاکہ وہ اپنا کھانا خود اگانے کو وقت دیں۔مختصر یہ کہ لوگ مشکلات کا شکار ہیں اور حالات کو بہتر کرنے کیلئے بے چین ہیں۔
آخر معیشت اس قدر ابتری کا شکار کیوں ہے؟
   ماہرین  کا کہنا ہے کہ یہ بحران برسوں کی بدانتظامی اور بدعنوانی  سے پیدا ہوا ہے۔ عوام کا زیادہ تر غصہ صدر راجا پکشے اور ان کے بھائی سابق وزیر اعظم مہندا راجا پکشے پر  ہے۔ گزشتہ کئی برس سے حالات ابتر ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں،   ایسٹر کے خودکش بم دھماکوں میں ۲۶۰؍ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اس نے ملکی سیاحت کو تباہ کر دیاجو کہ زرمبادلہ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ملک میں بڑے  انفرااسٹرکچر کے منصوبوں کیلئے غیر ملکی قرضے بڑھنے کے بعد حکومت کو اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کی ضرورت تھی، اس کے بجائے راجا پکشے نے سری لنکا کی تاریخ میں ٹیکس کی سب سے بڑی کٹوتی پر عمل کیا ۔ٹیکس میں کٹوتی کو حال ہی میں تبدیل کر دیا گیا تھا لیکن قرض دہندگان کی جانب سے سری لنکا کی درجہ بندی کو کم کرنے کے بعد اسے مزید رقم لینے سے روک دیا گیا کیونکہ اس کے غیرملکی ذخائرڈوب گئے تھے۔ پھر کورونا میں  سیاحت ایک مرتبہ پھر سکڑ گئی۔راجا پکشے نے اپریل ۲۰۲۱ءمیں اچانک کیمیائی کھادوں کی درآمد پرپابندی لگا دی۔ نامیاتی کاشتکاری کے فروغ نے کسانوں کو حیران کر دیا اور چاول کی اہم فصلوں کو تباہ کر دیا، جس سے قیمتیں بڑھ گئیں۔زرمبادلہ بچانے کیلئے  پرتعیش  اشیا کی درآمد پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ دریں اثنا، یوکرین  جنگ نے خوراک اور تیل کی قیمتوں کو بڑھا دیا ۔ مئی میں مہنگائی ۴۰؍ فی صد کے قریب تھی اور خوراک کی قیمتوں میں تقریباً ۶۰؍ فی صد اضافہ ہوا تھا۔
وکرما سنگھے نے کیوں کہا کہ معیشت تباہ ہو گئی ہے؟
 اسکے بعد جون میں وکرما سنگھے نے اپنی وزارت عظمیٰ کی چھٹی مدت کے دوران معیشت کی تباہی کی بات کی تو اس سےمعاشی حالت پر اعتماد کوٹھیس پہنچی اور کسی نئی ترقی کی عکاسی نہیں ہوسکی۔وزیر اعظم  حکومت کو درپیش مسائل کے حوالے سے تنقید کے تناظر میں  آئی ایم ایف سے مدد مانگتے وقت چیلنج کو نمایاں کر تے رہے۔ ان کی حکومت کو ناکافی اقدامات کرنے پر تنقید کا سامنا تھا۔وزارت خزانہ نے کہا کہ سری لنکا کے پاس قابل استعمال غیر ملکی ذخائر میں صرف  ڈھائی کروڑ ڈالر ہیں۔ لہٰذا اس کیلئے  اربوں ڈالر کا قرضہ ادا کرنا تو کجا، ملکی درآمدات کی ادائیگی کرنا ممکن نہ تھا۔اس دوران سری لنکا کا روپیہ کمزور ہو کر تقر یباً ۳۶۰؍ امریکی ڈالر تک پہنچ گیا ۔ اس سے درآمدات کی لاگت اور بھی مشکل ہو گئی۔سری لنکا  نے ۲۰۲۶ءتک ادا کئے جانے والے ۲۵؍ ارب ڈالر میں سے ۷؍ ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی روک دی ہے۔
حکومت بحران پر قابو پانے  کیلئے کیا کر رہی ہے؟
 معاشی دلدل سے نکلنے  کیلئےسری لنکا نے اب تک بنیادی طور پر ہندوستان کی طرف  سے ۴؍ ارب ڈالر کی رقم پر انحصار کیا ہے۔ایک ہندوستانی  وفد جون میںمزید امداد پر بات چیت کیلئے کولمبو آیا تھا۔ لیکن وکرما سنگھے نے  ہندوستان کی جانب سے سری لنکا کو طویل عرصے تک چلانے میں مدد کی توقع کے خلاف خبردار کیا۔ کولمبو ٹائمز میں جون کی ایک سرخی کچھ ایسے تھی ’’سری لنکا نے آئی ایم ایف سے آخری امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔‘‘ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پلان پر بات کر رہی ہے، اور وکرما سنگھے نے کہا ہے کہ وہ اس موسم گرما کے آخر میں ابتدائی معاہدے کی توقع رکھتے ہیں۔سری لنکا نے چین سے بھی مزید مدد مانگی ہے۔ دیگر حکومتوں جیسے امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا نے چند سو ملین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے۔اس سے قبل جون میں اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں سری لنکا کیلئے امداد کی عوامی اپیل کا آغاز کیا تھا۔ لیکن اب تک متوقع فنڈنگ ۶؍ ارب ڈالر کے ہدف سے کوسوں دور ہے۔ ملک کو اگلے چھ ماہ چلانے کیلئے ۶؍ ارب ڈالر کی کی ضرورت ہے۔وکرما سنگھ نے ایک  انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کا ملک روس سے رعایتی قیمت پر تیل خریدنے پر غور کرے گا۔
سری لنکا کی صورت حال خطے کیلئے کتنی اہم ہے؟
 ماہرین کا کہنا ہے کہ سری لنکا کی صورتحال جنوبی ایشیا اور بین الااقوامی دونوں حوالوں سے بہت اہم ہے اور اس کے خطے پر معاشی، سیاسی اور دفاعی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔کیونکہ سری لنکا کے ہندوستان او ر چین دونوں سے تعلقات ہیں جبکہ پاکستان کے ساتھ اس کے دفاعی تعلقات بھی بہت اہم ہیں۔ اس سارے تناظر میں سری لنکا کے غیر یقینی صورتحال سے نکلنے میں بہت سے عوامل کارفرما ہوں گے۔’’ ایک طرف تو یہ دیکھنا ہوگا کہ سری لنکا کی قیادت اب کن ہاتھوں میں جائے گی۔ کیا نئی قیادت اس نازک وقت میں قوم کوصحیح سمت کی جانب لے جانے کیلئے وہ اقتصادی اقدامات کرپائے گی جن کا  آئی ایم ایف تقاضہ کرے گا۔‘‘ دوسرا یہ کہ سری لنکا کی امداد کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلہ بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔مثال کے طور پر چین نے بندرگاہ کی صورت میں سری لنکا میں اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انییشی ایٹو کے سلسلے میں بھاری سرمایہ کر رکھی ہے لیکن ابھی تک بیجنگ نے کولمبو کی اس موڑ پر کسی بڑے انداز میں مدد کرنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔دوسری طرف امریکی حکام نے سری لنکا سے حالیہ مہینوں میں رابطے کئے ہیں لیکن ابھی واشنگٹن نے  اس سلسلے میں کوئی واضح اشارہ نہیں دیا ہے۔‘‘چاہے جو بھی ہو سری لنکا کی  صورتحال سے ظاہر  ہے کہ امداد کرنے والے ادارے یا ممالک اس کی ضمانت چاہیں گے کہ امدادی رقم کس مقصد کیلئے اور کیسے استعمال ہوگی ۔لہٰذا سری لنکا کے فیصلے عوام اور خطے کیلئے بہت اہم ہوںگے۔‘‘

sri lanka Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK