غزہ کے ۶۳؍ سالہ گورکُن کے مطابق ’’۷۰؍ فیصد لاشیں بچوں اور خواتین کی ہوتی ہیں۔‘‘
EPAPER
Updated: November 12, 2023, 9:36 AM IST | Agency | Gaza
غزہ کے ۶۳؍ سالہ گورکُن کے مطابق ’’۷۰؍ فیصد لاشیں بچوں اور خواتین کی ہوتی ہیں۔‘‘
غزہ پر اسرائیلی حملوں میں ہر روز سیکڑوں اموات کے بیچ تدفین کیلئے نہ صرف جگہ بلکہ سازوسامان کی بھی قلت محسوس ہونے لگی ہے۔ اب یہاں اجتماعی قبریں معمول بن گئی ہیں۔ ۶۳؍ سالہ سعدی براکا جنہوں نے قبریں کھودتے ہوئے اپنی زندگی گزار دی، ۷؍اکتوبر کے بعد کے حالات پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ ترک خبر رساں ایجنسی ’انادولو‘ سے گفتگو کے دوران وہ جذبات ہوگئے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ایک مہینے میں شہید ہونے والے بچوں کی اتنی زیادہ لاشیں دیکھی ہیں کہ اب رات کو سو نہیں پاتے۔
اسرائیل اپنے حملوں کا جواز یہ کہہ کر پیش کرتا ہے کہ وہ حماس کو نشانہ بنارہاہے مگر سعدی بتاتے ہیں کہ زیادہ تر اموات خواتین اور بچوں کی ہورہی ہیں جو ۷۰؍ فیصد سے بھی زائد ہیں۔ اجتماعی قبروں کے تعلق سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’ہم اس کیلئے مجبور ہیں۔ ہر روز اتنی بڑی تعداد میں لاشوں کی تدفین کیلئے جگہ نہیں ہے، نہ ہی تدفین کیلئے ضروری سامان میسر ہے۔ ہر چیز ختم ہورہی ہے۔‘‘
بچوں کی اموت کے تعلق سے وہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے بچوں، خواتین اور بوڑھوں پر ایسا ظلم اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ وہ (یہودی) نازی جرمنی کی بات کرتے ہیں مگر وہاں بھی ایسا ظلم نہیں ہوا۔‘‘ سعدی بتاتے ہیں کہ ’’کل میں نے ۶۰۰؍ شہیددفن کئے ہیں۔ یہ تعداد گزشتہ ۵؍ برسوں میں میں نے جتنی میتیں دفن کی ہیں،اس سے زیادہ ہے۔ ایساظلم پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ جن کو دفن کیا ان میں اکثریت بچوں اور خواتین کی تھی۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ’’عام طور پر ایک اجتماعی قبر۶؍ میٹر کی ہوتی ہے جس میں بیک وقت تقریباً ۴۵؍ لاشیں دفن کی جاتی ہیں۔ اب تک کی جو سب سے بڑی اجتماعی قبر تھی وہ ۱۳۷؍ لاشوں کی تھی۔‘‘