Inquilab Logo

’’مجھے تو لگتا ہے حفظ ِ قرآن ہی کی برکت سے میرا بلڈ کینسر ٹھیک ہوا!‘‘

Updated: April 02, 2024, 11:17 PM IST | Mukhtar Adeel | Mumbai

نابینا حافظ عامر خان کا کہنا ہے کہ ۲۸؍ پارے مکمل ہوچکے تھے تب کینسر کی تشخیص ہوئی مگر حفظ کا سلسلہ جاری رہا۔ مدرسہ فیض القرآن سےتکمیل حفظ کے بعد وہ اسی درسگاہ میں بریل الفابیٹ والے لیپ ٹاپ کی مدد سے کمپیوٹرپروگرامنگ آپریٹنگ بھی سیکھ رہے ہیں۔

Hafiz Aamir Khan. Photo: INN
حافظ عامر خان۔ تصویر : آئی این این

تلے گائوں (اورنگ آباد) سے آبائی نسبت رکھنے والے حافظ عامر خان (عرفی نام افروز خان) بینائی سے محروم ہیں مگر کلام پاک کو اپنے سینے میں محفوظ کرکے اُنہوں نے آخرت کی روشنی تو حاصل کر ہی لی ہے۔ انہوں نے اسی سال مالیگائوں کے مدرسہ دارالعلوم فیض القرآن سے حفظ مکمل کیا ہے۔ فی الحال اپنے آبائی گائوں میں ہیں اور دَور جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گائوں کی مسجد کے ٹرسٹیوں نے اگلے برس تراویح کیلئے موقع دینے کی ہامی بھری ہے۔

یہ بھی پڑھئے: بھیونڈی:دیہی علاقوں میں پانی کی شدید قلت،گرام پنچایت کے ۱۰؍ دفاترکے سامنے احتجاج

حضرت صوفی نور العین صابری (مہتمم مدرسہ ہذٰا) کے مطابق لاک ڈائون سے قبل حافظ عامر کے والدین نے اُنہیں دینی تعلیم کے حصول کیلئے مالیگائوں کے مدرسہ فیض القرآن میں داخل کیاتھا۔ اُس وقت بانی ٔمدرسہ حضرت صوفی غلام رسول قادری بقید حیات تھے۔ حافظ صاحب کے والد اکبر خان نے صوفی صاحب کی شخصیت اور دینی خدمات کے پیش نظر اپنے لخت جگر کو ان کی سرپرستی میں دیا تھا۔ آنکھوں میں روشنی بالکل نہیں تھی۔ ان کی پڑھائی کیلئے حافظ محمد یاسین فیضی اور حافظ محمد ذاکر فیضی کی تقرری عمل میں آئی۔ یہ دونوں بھی نابینا ہیں اور علم دین کے حصول کی تڑپ رکھنے والے طلبہ پر زیادہ توجہ صرف کرتے ہیں۔ ناظرہ کے بعد عامر نے حفظ کا آغاز کیا۔ انہی ایام میں کووڈ کی وبا کے سبب لاک ڈائون لگ گیا اور اُنہیں اپنے وطن واپس ہونا پڑا۔
 حافظ عامر، جن کی عمر اِس وقت صرف ۱۶؍سال ہے، کے مطابق: ’’حفظ قرآن کا سلسلہ جاری تھا کہ مجھے طبی مسائل درپیش ہوئے۔ یکے بعد دیگرے کئی معائنوں کے بعد بلڈ کینسر کی تشخیص ہوئی۔ مدرسہ فیض القرآن کے ذمہ داروں نے علاج ومعالجے کیلئے کمر کس لی۔ اورنگ آباد کے نجی اسپتال میں بہترین علاج کروایا۔ میں نےاسپتال کے بیڈ پر بھی کلام پاک کا ورد جاری رکھا۔ ۲۸؍ پارے حفظ ہوچکے تھے۔ کینسر کا علاج شروع ہوا لیکن حفظ کا سلسلہ بند نہیں کیا۔ اسی کی برکت تھی کہ ایک سال کے قلیل عرصے میں ایسے مہلک مرض سے نجات مل گئی۔ تین سال کے اندر پورا کلام مجید حفظ کرلیا۔ اب کینسر کے اثرات بالکل زائل ہوچکے ہیں۔‘‘ حافظ عامر نے یہ بھی کہا کہ اُن کی چھوٹی بہن (نام مخفی) ہے جس کی آنکھوں میں بینائی نہیں تھی۔ اس کا علاج حیدرآباد کے نجی اسپتال میں کروانے کے بعد خدا کے رحم و کرم سے، اُسے دِکھائی دینے لگا ہے۔
حافظ عامر کے والد اکبرخان پیشے سے مزدور ہیں۔ تلے گائوں میں ہی چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں۔ انہوں نے بڑی عمدہ بات بتائی، کہا: ’’حفظ مکمل کرنے کے بعد عامر نے دریافت کیا کہ ابّا، اب آگے کیسے اور کیاکرنا ہے؟ مَیں نے کہا کمپیوٹر سیکھ لے۔ آج کے زمانے میں اس کی بہت اہمیت ہے۔ معاشی طور سے آسودگی کے اسباب میسر ہوں گے۔ عامر کو یہ بات اچھی لگی۔ مدرسہ فیض القرآن کے ذمہ داران سے کمپیوٹر سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا، اُنہوں نے بریل الفابیٹ والے لیپ ٹاپ کا انتظام کردیا۔ اب کمپیوٹر کی ٹریننگ کیلئے کئی ماہرین عامر کی مدد کررہے ہیں۔ بہت سی معلومات بھی آن لائن حاصل ہورہی ہے۔‘‘ اکبر خان نے کہا کہ مجھے غم اِس بات کا نہیں کہ میرے بیٹے کو آنکھوں سے دِکھائی نہیں دیتا، خوشی اِس کی ہے کہ اُس کے سینے میں کلام ربّانی کا نُور محفوظ ہے۔
 اس نمائندہ نے حافظ عامر کے اساتذہ حافظ محمد یاسین فیضی اور حافظ محمد ذاکر فیضی (ان کی بھی بینائی متاثر ہے) سے بھی گفتگو کی، اُن کا کہنا تھا کہ حافظ عامر خان ذہین، سنجیدہ اور فرماںبردار طالب علم ہے۔ اس میں پڑھنے اور سیکھنے کا عجب جذبہ تھا۔ قرآنی ذوق اور بزرگانِ دین سے محبت کے جذبے نے اس کیلئے کامیابیوں کی راہ کھول دی۔ صوفی غلام رسول قادری مرحوم اسے بہت زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ ہمہ وقت خیال رکھتے۔ اس کا شوق دیکھ کر عام لوگوں کو رشک آتا تھا۔
واضح رہے کہ حافظ عامرخان مخصوص سافٹ ویئر کی مدد سے اینڈروئڈ موبائل بھی آسانی سے استعمال کرلیتے ہیں۔ بریل الفابیٹ لیپ ٹاپ آپریٹنگ میں بھی انہیں مہارت حاصل ہورہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK