Inquilab Logo

بحیرۂ احمر میں رکاوٹ کے سبب ہندوستانی برآمدات کا راستہ تبدیل، لاگت میں اضافہ

Updated: February 09, 2024, 8:15 PM IST | Mumbai

بحیرۂ احمر میں جاری تنا زع کے سبب درآمد اور برآمد کی لاگت بڑھ رہی ہے جس کا اثر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں نظر آرہا ہے۔ یہ بحران ہندوستانی معیشت کو متاثر کررہا ہے۔ ہندوستانی بر آمدات کو راستہ تبدیل کرنے کی صورت میں زیادہ لاگت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے بر آمدات کا حجم کم ہو رہا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ایک رپورٹ کے مطابق بحیرۂ احمر کے راستے میں مسلسل رکاوٹوں کے سبب ان تجارتی کمپنیوں کے جو بین الاقوامی تجارت کا حصہ ہیں ان کی مال برداری اور اس سے جڑے سودوں کی لاگت میں ۲۵؍ سے ۳۰؍فیصد کے اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی آئی این ڈی آر اے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تجارتی رقم کے دورانیہ میں ۱۵؍ سے ۲۰ ؍ دن کا اضافہ ہو سکتا ہے جو زراعت اور پارچہ بافی کی صنعت کیلئے کافی زیادہ ہے۔ تجارتی رقم کے دورانیہ سے مراد سپلائر کو کی گئی ادائیگی اور فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کے درمیان کی مدت ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: آزاد فلسطین کے قیام تک ترکی کی کوششیں جاری رہیں گی: ترک صدر رجب طیب اردگان

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نقدی کے بہائو پر دبائو اگرچہ بڑے اداروں کیلئے معقول ہے مگر قرضوں میں مزید اضافہ کرے گا۔ خاص طور پر لوہے اور فولاد، آٹو اور آٹوسے متعلق پرزہ جات، کیمیکل اور پارچہ بافی جیسے شعبوں میں سال در سال اضافہ درج کیا گیا ہے، خاص طور پر پہلے نصف محاصل میں۔ 
 کور انالیٹیکل گروپ کے ڈائریکٹر سومیہ جیت نیوگی کا کہنا ہے کہ ’’یہ چیلنج ان اداروں کیلئے اہم ہے جن کی قدر کم ہے اور جن میں منافع کی شرح کم ہوتی ہے۔ حالانکہ بڑے اداروں کے پاس اس طرح کی بڑھی ہوئی لاگت، تاخیر، سپلائی کے دورانیہ میں رکاوٹ جیسے کلیدی عوامل ہوتے ہیں جن پر انہیں نظر رکھنی ہوتی ہےاور ان سے مطابقت پیدا کرنے کے کئی راستے ہوتے ہیں۔ 
درمیانہ درجے کے اداروں کیلئے یہ چیلنج دوگنا ہے، لاگت اور رسد اور اس کے نتیجے میں تجارتی رقم کے دورانیہ پر پڑنے والا اثر۔ ان اداروں کو اجناس کی قیمتوں میں نرمی سے خاص فائدہ نہیں ہوتاکیونکہ ان میں زیادہ تر کیلئے بآسانی رقم کا بہائو سست ہی رہا۔ 
ریٹنگ ایجنسی کا کہنا ہے کہ ابتدائی رد عمل کے طور پر گزشتہ ۴۵؍ دنوں میں مال برداری کی شرح میں ۱۵۰؍فیصد کا اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس نے کہا کہ اپریل سے اکتوبر ۲۰۲۳ء کے دوران تیل کی کل درآمدات کا ۴۰؍ فیصد اور کل برآمد کا ۲۴؍ فیصد اس راستے سے گزرا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بڑی شپنگ لائنوں نے جہاز کا راستہ تبدیل کر کے طویل راستے کا انتخاب کیا جس کے نتیجے میں وقت اور لاگت دونوں میں اضافہ ہوا جس کے سبب درآمد اور برآمد دونوں متاثر ہوئیں۔ 
یہ چکر معمول کے مطابق کاروبار کے سفر میں ۱۲؍ سے ۱۵؍ دن کا اضافہ کرتا ہے۔ تاہم، کسی بھی اچانک کارروائی کی وجہ سے مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔ یہ چکر لاگت میں اضافہ کے ساتھ مال برداری کا خرچ، انشورنس، جہاز کی جسامت اور خرچ میں اضا فہ کی براہ راست ترجمانی کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ رکاوٹیں تاریخی طور پر قلیل مدتی ہوتی ہیں، لیکن جغرافیائی سیاسی حیثیت کے پیش نظر اس کا فوری حل نا ممکن لگتا ہے۔ 
ہندوستان کی غیر ملکی تجارت کا ۲۰؍ تا ۲۵؍ فیصد حصہ نہر سوئز کے ذریعے ہوتا ہے جس میں اہم مصنوعات جیسے خام تیل، مشینی اور خود کار آلات، کیمیکل، پارچہ بافی، لوہا اور فولاد متاثر ہوئی ہیں۔ ہندوستانی بر آمدات کو راستہ تبدیل کرنے کی صورت میں زیادہ لاگت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے بر آمدات کا حجم کم ہو رہا ہے۔ اس سے چھوٹے اور درمیانہ کاروباری ادارے متاثر ہورہے ہیں جو کم قیمت والی زیادہ حجم والی مصنوعات سے نمٹ رہے ہیں۔ 
ریٹنگ ایجنسی کا کہنا ہے کہ درآمد کی طرف اہم اجناس جیسےخام تیل، کھاد اور الیکٹرانک اجزاءکو بحران کی وجہ سے مہنگی قیمتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے سبب اعلیٰ برداری قیمت اور افراط زر کا دبائو بڑھ رہاہے۔ اس کا اثر ہندوستانی معیشت کے مختلف شعبوں پر پڑ رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK