بنگلہ دیش کی معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کی عدالت نے سزائے موت سنائی ہے۔ یہ خبر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ مختلف ملکوں کی تاریخ میں ایسے واقعات ملتے ہیں جب اقتدار سے ہٹنے کے بعد یا اقتدار سے بے دخلی کے بعد قانون کا شکنجہ کستا ہے اور سزا سنائی جاتی ہے۔
بنگلہ دیش کی معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کی عدالت نے سزائے موت سنائی ہے۔ یہ خبر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ مختلف ملکوں کی تاریخ میں ایسے واقعات ملتے ہیں جب اقتدار سے ہٹنے کے بعد یا اقتدار سے بے دخلی کے بعد قانون کا شکنجہ کستا ہے اور سزا سنائی جاتی ہے۔ سزا کتنی درست ہوتی ہے اور کتنی نا درست یہ الگ بحث ہے۔ کبھی کبھی سیاسی حریفائی بھی اس کا محرک بنتی ہے اور جذبۂ انتقام بھی۔ شیخ حسینہ کے دور میں جو کچھ ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اِس میں اُن کا کتنا قصور ہے یہ جانچنے اور شواہد کی گہرائی سے مطالعہ و مشاہدہ کرنے کے بعد ہی فیصلہ سنایا ہوگا اس لئے فیصلے پر کچھ کہنا نہ تو ممکن ہے نہ ہی مناسب البتہ معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ پر عائد الزامات ناقابل یقین ہوں ایسا بھی نہیں ہے۔ طلبہ کو بغاوت جیسے انتہائی اقدام تک کس نے دھکیلا، کیوں اُنہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا، حالات کو خوفناک حد تک کیوں جانے دیا گیا جیسے درجنوں ’’کیوں ‘‘ ہر جملے کا حصہ بن سکتے ہیں اور چونکہ وہی عنان حکومت سنبھالے ہوئے تھیں اس لئے سوال اُنہی سے کیا جائیگا، جواب اُنہی سے مانگا جائیگا، مقدمہ بھی اُنہی کے خلاف چلے گا اور شواہد ملنے پر فیصلہ بھی اُنہی کے خلاف آئیگا۔
اس بنیاد پر اہل اقتدار کی بابت یہ کہنے سے تعرض نہیں کیا جاسکتا کہ اُنہیں اقتدار کے دور میں ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہئے جو عوام کے حق اور مفاد میں ہو، جس سے انصاف کو راہ ملے اور نا انصافی یا زیادتی کی راہ مسدود ہو۔ شیخ حسینہ کے بارے میں مشہور ہے کہ اُنہوں نے ملک کے حفاظتی دستوں کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا بالخصوص ریپڈ ایکشن بٹالین کو، جس پر بہت سے مخالفین کی ہراسانی، اُن کے اغواء، قتل اور ان سب کے علاوہ الیکشن میں بدعنوانی جیسے سنگین الزامات ہیں ۔ اُن پر عدلیہ پر اثر انداز ہونے کا بھی الزام تھا۔ اس سلسلے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جب ایک چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں اُن کے خلاف ریمارک دیا تو اُس کیلئے بنگلہ دیش میں رہنا مشکل ہوگیا تھا۔ اُس نے کسی اور ملک کی راہ لی۔ قارئین کو ۲۰۱۷ء کا یہ واقعہ اور چیف جسٹس (سریندر کمار سنہا) کا نام یاد ہوگا جو بنگلہ دیش کے اولین غیر مسلم چیف جسٹس تھے۔ یہ اور ایسے کئی واقعات شیخ حسینہ کے دور ِ اقتدار کے زخموں کے طور پر یاد رکھے جائینگے اس کے باوجود اُن کی حکومت جاری تھی۔ مشکل حالات تب پیدا ہوئے جب شیخ حسینہ نے طلبہ کے احتجاج کو مخالفین سیاسی مخالفین کے زمرے میں رکھا اور اُن کے مظاہرہ کو روکنے کیلئے پولیس کے علاوہ اپنی پارٹی کے اسٹوڈنٹس وِنگ ’’دی بنگلہ دیش چھاترا لیگ‘‘ کو آگے کیا جس سے حالات بگڑتے چلے گئے۔ جولائی ۲۴ء میں یہ سلسلہ کم و بیش ۲۰۰؍ افراد کی ہلاکت پر منتج ہوا۔ متوفین میں بڑی تعداد طالب علموں اور عام شہریوں کی تھی۔
اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا ہندوستان شیخ حسینہ کو، جنہوں نے ہندوستان میں پناہ لی ہے، بنگلہ دیش کے حوالے کردیگا؟ اس کا امکان کم ہے۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے حکومت ِ ہند کو روانہ کی گئی درخواست میں ۲۰۱۳ء کے ’’ہند بنگلہ دیش معاہدۂ حوالگی‘‘ کا حوالہ دیا ہے جس کی شق ۶(۱) کہتی ہے کہ اگر مبینہ جرم سیاسی نوعیت کا ہے تو حوالگی سے انکار کیا جاسکتا ہے۔ اس بنیاد پر نئی دہلی کی جانب سے یہ تاویل پیش کی جاسکتی ہے کہ شیخ حسینہ پر جن الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا اُن کا تعلق بنگلہ دیش کے سیاسی حالات سے ہے ۔ ایسی صورت میں بنگلہ دیش کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ حسینہ پر عائد الزامات کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔