جے پور کے اسکول کے بعد بیکانیر کے اسکول کو بھی اردو کی جگہ سنسکرت پڑھانے کی ہدایت جاری کی گئی ،ریاستی وزیرجواہر سنگھ نے اردو ٹیچروں کی تقرریوں پر بھی سوال اٹھائے
EPAPER
Updated: February 18, 2025, 11:37 PM IST | Jaipur
جے پور کے اسکول کے بعد بیکانیر کے اسکول کو بھی اردو کی جگہ سنسکرت پڑھانے کی ہدایت جاری کی گئی ،ریاستی وزیرجواہر سنگھ نے اردو ٹیچروں کی تقرریوں پر بھی سوال اٹھائے
راجستھان کی بی جے پی حکومت نے اردو دشمنی کا جو مظاہرہ گزشتہ روز کیا تھا منگل کو اس معاملے میں دو ہاتھ آگے جاتے ہوئے ریاستی وزیر جواہر سنگھ بیدم نےیہ دعویٰ کردیا ہے کہ ریاست میں اردو ٹیچروں کی تقرریوں میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور بے ضابطگی ہوئی ہے۔ ساتھ ہی یہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ریاستی حکومت نے اردو سے سوتیلے پن کا ایک اور مظاہرہ کرتے ہوئے بیکانیر کے اسکول کو بھی ہدایت جاری کی ہے کہ وہ اپنے یہاں تیسری زبان کے طور پر اردو کے بجائے سنسکرت پڑھانے کے انتظامات کرے ۔
واضح رہے کہ ریاستی وزیر مملکت برائے داخلہ جواہر سنگھ بیدم نے اردو دشمنی کا واضح ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ صرف اردو کو تبدیل نہیں کیا جارہا ہے بلکہ اس کے اساتذہ کو بھی ہٹانے کی ضرورت ہے کیوں کہ ان میں سے اکثریت جعلی ڈگریوں، خرد برد اور بدعنوانی کے ذریعہ مقرر ہوئی ہے۔ ان سبھی کی جانچ کروانے اور ان کی ڈگریوں کی جانچ کروانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سابقہ اشوک گہلوت حکومت نے سنسکرت ٹیچروں کو ہٹاکر ان کی جگہ اردو کے ٹیچر مقرر کئے تھے اس لئے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اس نا انصافی کو درست کیا جائے اور سنسکرت جو ہماری اپنی زبان ہے اسے اس کا حق دیا جائے۔
اس بارے میں راجستھان اردو ٹیچرس اسوسی ایشن کے صدرامین قائم خانی نے ایم ایس این نیوز پورٹل سے گفتگو میں واضح طور پر ریاستی وزیر جواہر سنگھ کے بیان کی مذمت کی ۔ انہوں نے کہا کہ بغیر کسی ثبوت اور بغیر کسی جانچ کے اردو ٹیچروں پر اتنا سنگین الزام عائد کردینا ان کی شبیہ بگاڑنے کے مترادف ہے۔اگر ریاستی حکومت نے جانچ کروائی ہے اور اس میں کوئی بے ضابطگی پائی گئی ہے تو وہ بات سامنے لائی جانی چاہئے لیکن اس طرح سے تمام اردو اسکولوں کو معتوب قرار دینا اور سبھی اردو ٹیچرس کی ہتک کرنا درست رویہ نہیں ہے۔ امین قائم خانی نے مزید کہا کہ نہ سابقہ حکومت نے سنسکرت ٹیچروں کی جگہ کسی اردو ٹیچر کو رکھا ہے اور نہ اردو ٹیچرس نے کسی بے ضابطگی سے کام لیا ہے۔ وزیر موصوف بلاوجہ اقلیتی کمیونٹی اور لسانی اقلیت کو بدنام کرنے کے اکثریت کو ورغلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم یہ قطعی برداشت نہیں کریں گے۔ اس کے خلاف ہم سے جس طرح سے بھی ہو گا ہم احتجاج کریں گے اور یہ بیان واپس لینے کا مطالبہ کریں گے ۔
اس معاملے میں تنازع بڑھتا دیکھ کر کانگریس کے رکن اسمبلی رفیق خان نے ریاستی وزیر تعلیم مدن دلاور کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے تمام اعداد و شمار پیش کئے ہیں۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’’مہاتما گاندھی اسکول میں اس وقت ۱۲۷؍ سے زائد طلبہ ہیں جو اردو پڑھ رہے ہیں۔ انہیں اس طرح سے تعلیم سے محروم کرنا اور ایک زبان پڑھنے سے روکنا ان کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ اس اسکول میں اردو پڑھنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ اس لئے یہاں کے طلبہ پر بلاوجہ سنسکرت تھوپنے کی کوشش نہ کی جائے۔ ‘‘انہوں نے یہ بھی لکھا کہ سال کے درمیان میں بچوں پر سنسکرت تھوپنے کی کوشش کی وجہ سے ان کا سال خراب ہو سکتا ہے یا پھر وہ ذہنی انتشار میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ اس معاملے میںتنازع کافی بڑھ گیا ہے کیوں کہ یہ مسئلہ صرف ایک اسکول کا نہیں رہ گیا ہے بلکہ اس کی وجہ سے پوری ریاست میں اردو ذریعہ تعلیم پر سوال اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ساتھ ہی اس کی جگہ سنسکرت کو اپنی زبان قرار دے کر اسے فروغ دینے کی کوشش بھی ہو رہی ہے۔ بہر حال اس کی وجہ سے بی جے پی کے زیر اقتدار راجستھان میں اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک کھل کر منظر عام پر آگیا ہے۔