Inquilab Logo

ایلون مسک کی کمپنی’نیورا لنک‘ کے خلاف تحقیقات

Updated: December 07, 2022, 11:06 AM IST | Washington

طبی آلات کی کمپنی پر تجربات کے دوران جانوروں کو تکلیف دینے کا الزام

Elon Musk; Photo: INN
ایلون مسک;تصویر :آئی این این

 دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کی طبی آلات بنانے والی کمپنی `نیورالنک کے خلاف جانوروں کی فلاح و بہبود کی ممکنہ خلاف ورزیوں کی شکایات پر تحقیقات ہو رہی ہے۔   کمپنی کےعملے نے شکایت کی ہے کہ جانوروں پر تجربات جلدی میں کئے جا رہے ہیں جسکی وجہ سے انہیں غیر ضروری تکلیف ہو رہی ہے اور ان کی موت بھی ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ نیورا لنک کمپنی ایک برین امپلانٹ تیار کر رہی ہے جسے امید ہے کہ مفلوج افراد کو دوبارہ چلنے اور دیگر اعصابی بیماریوں کا علاج کرنے  میں مدد ملے گی۔
  دستاویز ،تحقیقات اور کمپنی کے آپریشن سے واقف ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ امریکی محکمۂ زراعت کے انسپکٹر جنرل نے تحقیقات کا آغاز  ایک وفاقی پراسیکیوٹر کی درخواست پر کیا ہے۔ ایلون مسک کے ادارے نیورالنک کی ایک ویڈیو میں ایک بندر کو سوچ بچار کے ساتھ ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے دکھایا گیاہے جسکے دماغ میں کمپیوٹر چپ ڈالی گئی ہے۔یہ ایکٹ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ محققین جانوروں کے ساتھ کیسے سلوک کرتے ہیں اور ان کی ٹیسٹنگ پر کیسے تجربات کرتے ہیں۔کمپنی  پر یہ الزام بھی  ہے کہ اس کے سی ای او مسک کی جانب سے تجربات کے نتائج جلد برآمد کرنے کے دباؤ کے نتیجے میں غلط تجربات ہوئے ہیں۔سابق ملازمین کے مطابق  ملازمین کو ناکام ٹیسٹوں کو دہرانا پڑتا ہے، جس سے مرنے والے  جانوروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔اطلاع کے مطابق مسک اور نیورا لنک کے دیگر ایگزیکٹیوز نے اس معاملے پر اب تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ امریکی قواعد و ضوابط اس بات کی وضاحت نہیں کرتے کہ کمپنیاں ٹیسٹنگ کیلئے کتنے جانوروں کو استعمال کر سکتی ہیں۔قواعد کے مطابق سائنس دانوں کو یہ تعین کرنے کی اجازت ہوتی ہے کہ تجربات میں کب اور کیسے جانوروں کو استعمال کر سکتے ہیں۔اس سلسلے میں نیورالنک کمپنی نے امریکی محکمۂ زراعت کے طے کردہ تمام معائنے پاس کر رکھے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۸ء سےاب تک کمپنی کے تجربات میں لگ  بھگ ۱۵۰۰؍جانور ہلاک ہوئے ہیں، جن میں ۲۸۰؍سے زیادہ بھیڑیں، سور اور بندر شامل ہیں۔ یہ اعداد وشمار اندازے سے ظاہر کئے گئے ہیں کیونکہ کمپنی تجربات میں استعمال ہونے والے جانوروں کا ریکارڈ نہیں رکھتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK