عالمی دباؤ کے بعد نیتن یاہو نے جنگ روکنے کی بات تو کی مگر غزہ پر مکمل کنٹرول کی دھمکی کو دہرایا، اہل غزہ کی بیرون ِ غزہ منتقلی کی شرط بھی رکھ دی
EPAPER
Updated: May 22, 2025, 11:15 PM IST | Tel Aviv
عالمی دباؤ کے بعد نیتن یاہو نے جنگ روکنے کی بات تو کی مگر غزہ پر مکمل کنٹرول کی دھمکی کو دہرایا، اہل غزہ کی بیرون ِ غزہ منتقلی کی شرط بھی رکھ دی
غزہ میں جنگ بندی کیلئے عالمی دباؤ میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے عارضی جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی ہے مگر یہ شرط رکھ دی ہے کہ غزہ کے شہریوں کو کہیں اور منتقل کرنے کے ٹرمپ کے ’’انقلابی منصوبہ‘‘ کو نافذ کیا جائے۔ ایک پریس کانفرنس میں اسرائیلی وزیراعظم نے جنگ میں شدت کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی اس دھمکی کو دہرایا کہ ’’غزہ کی پوری زمین پر اسرائیل کا سیکوریٹی کنٹرول ہوگا اور حماس کو پوری طرح سے ہرا یاجائےگا۔‘‘ انہوں نے غزہ میں ’’جدعون کا رتھ‘‘ کے نام سے شروع کئے گئے فوجی آپریشن کو اس کے انجام تک پہنچانے کی بات کی اور کہا کہ اس کا مقصد ’’ جنگ اور کام کو مکمل کرنا‘‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ ہماری فوجیں غزہ میں حماس کے ان ٹھکانوں پر ضرب لگا رہی ہیں جو ابھی تک بچے ہوئے ہیں۔ ‘‘
ٹرمپ کے منصوبے پر عمل درآمد کی شرط
جنگ کوختم کرنے کے تعلق سے نیتن یاہو نے کہا کہ وہ ’’جنگ بندی کیلئے تیار‘‘ ہیں مگر ’’یہ اسی شرط پر ہوگی جو اسرائیل کی مکمل سلامتی کو یقینی بنائے، تمام یرغمال گھر لوٹ آئیں، حماس ہتھیار ڈال دے، اقتدار سے بے دستبردار ہوجائے اوراس کے لیڈر غزہ چھوڑ کر جلاو طن ہوجائیں۔ غزہ کو پوری طرح سے اسلحہ سے پاک کرنا ہوگا اور ٹرمپ کے منصوبہ پر عمل درآمد کرنا ہوگا جو انقلابی منصوبہ ہے۔‘‘ ٹرمپ نے عہدہ ٔ صدارت سنبھالنے کے بعد غزہ کی پوری آبادی کو کہیں اور منتقل کردینے کی تجویز پیش کی تھی جس کی فلسطینیوں اور عربوں نے ہی نہیں پوری دنیا نے مخالفت کی تھی۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ’’ اگر یرغمالوں کی رہائی کیلئےعارضی جنگ بندی کا کوئی متبادل ہے تو ہم اس کیلئے تیار ہوں گے۔‘‘ نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی فوج کا ہدف موجودہ آپریشن کے اختتام تک پورے غزہ پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔
ۭاسرائیل کے اتحادی بھی اس کے خلاف
غزہ کی ناکہ بندی، بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے اور جارحانہ کارروائیوں میں شدت کی وجہ سے عالمی رائے تیزی سے اسرائیل کے خلاف ہورہی ہے۔ اس کے اپنے اتحادی اس کے خلاف ہورہے ہیں۔ برطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدہ کیلئے جاری بات چیت کو معطل کردیا ہے جبکہ یورپی یونین نےبھی دھمکی دی ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی پر مجبور ہے۔ برطانیہ ، فرانس اور کنیڈا نے اسرائیل سے جنگ بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بصورت دیگر اس کے خلاف ’’پختہ ایکشن ‘‘ کا اعلان کیا ہے۔ تینوں ملکوں نے ریاست فلسطین کو جلد ہی تسلیم کرلینے کا بھی فیصلہ کیا ہے جو تل ابیب کیلئے تازیانہ سے کم نہیں ہے۔
ڈنمارک نے عالمی دباؤ بڑھانے کی اپیل کی
غزہ میں زائد از ڈیڑھ ماہ سے جاری قتل عام پوری دنیا کیلئے اب ناقابل برداشت ہوتا جارہاہے۔ جمعرات کو ڈنمارک نے بھی عالمی برادری سے اسرائیل پر جنگ بندی اور امداد کی بحالی کیلئے دباؤ بڑھانے کی اپیل کی ہے۔ وزیراعظم میٹ فریڈرکسن نے ڈنمارک کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’انسانی بنیادوں پر بھیجی گئی امداد کوروکنا غلط ہے،اس لئے اسرائیل پر دباؤ بڑھانا ضروری ہے، ہم کئی دنوں سے یورپی یونین کے ساتھ اس سلسلے میں رابطے میں ہیں۔‘‘ اُدھر اسپین، فرانس، برطانیہ اور کنیڈا کے بعد جمعرات کو یوروگوئے نے بھی اسرائیل کے سفیر کو طلب کرکے برہمی کااظہار کیا۔ اسرائیلی فوج نے گزشتہ روز بین الاقومی سفارتی وفد پر بھی فائرنگ کی تھی۔ یوروگوئے نے اس پر بھی جواب طلب کیا ہے۔