Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکی حکام نے فلسطینی کارکن محمود خلیل کو نومولود بیٹے سے ملاقات کی اجازت دینے سے انکار کردیا

Updated: May 22, 2025, 9:01 PM IST | Inquilab News Network | Washington

۳۰ سالہ خلیل دو ماہ سے زائد عرصے سے سینٹرل لوزیانا میں واقع آئی سی ای پروسیسنگ سینٹر میں زیر حراست ہیں جبکہ ان کا امیگریشن کیس نیو جرسی میں جاری ہے۔ سینٹر فار کانسٹی ٹیوشنل رائٹس کے قانونی ڈائریکٹر باحر عزمی نے وفاقی حکومت پر الزام لگایا کہ خلیل کو فلسطینی انسانی حقوق کی حمایت کی سزا دینے کیلئے ہزاروں میل دور واقع حراستی مرکز میں رکھنے کا انتخاب کیا گیا ہے۔

Mahmoud Khalil`s wife Noor Abdalla. Photo: INN
محمود خلیل کی اہلیہ نور عبداللہ۔ تصویر: آئی این این

امریکی ایجنسی، امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) اور ایک نجی جیل کانٹریکٹر نے فلسطینی کارکن اور کولمبیا یونیورسٹی کے گریجویٹ طالب علم محمود خلیل کو اپنے نومولود بیٹے سے ملاقات کرنے اور اسے گود میں لینے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔ امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) کے مطابق، یہ اقدام خلیل کی فلسطین نواز سرگرمیوں کے خلاف جوابی کارروائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: مارک روبیوکی تقریر میں ۲؍ فلسطین حامی مظاہرین کی رخنہ اندازی

یاد رہے کہ ۳۰ سالہ خلیل، جو قانونی طور پر امریکہ کے مستقل رہائشی ہیں، کو کولمبیا میں فلسطین نواز مظاہروں میں حصہ لینے کے الزام میں مارچ میں نیویارک شہر میں یونیورسٹی کی ملکیت والے اپارٹمنٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ دو ماہ سے زائد عرصے سے سینٹرل لوزیانا میں واقع آئی سی ای پروسیسنگ سینٹر میں زیر حراست ہیں جبکہ ان کا امیگریشن کیس نیو جرسی میں جاری ہے۔

خلیل کی اہلیہ نور عبداللہ نے اے سی ایل یو کے ذریعے جاری کردہ ایک بیان میں کہا، "میں اپنے ایک ماہ کے نومولود بیٹے کے ساتھ ایک ہزار میل سے زائد کا سفر طے کرکے لوزیانا پہنچی، صرف اس لئے کہ اس کے والد اسے اپنی بانہوں میں لے سکیں، لیکن آئی سی ای نے ہمیں اس بنیادی انسانی حق سے بھی محروم کر دیا۔" انہوں نے مزید کہا، "یہ صرف بے رحمی نہیں، بلکہ دانستہ تشدد ہے، یہ خاندانوں کو بغیر کسی پچھتاوے کے الگ کرنے والی حکومت کی جانب سے دانستہ ظلم ہے۔"

یہ بھی پڑھئے: نیدرلینڈز: اسرائیل سے تعلقات کے خلاف یونیورسٹیوں میں احتجاج جاری

اے سی ایل یو اور سینٹر فار کانسٹی ٹیوشنل رائٹس (سی سی آر) نے بتایا کہ خلیل کی قانونی ٹیم نے بچوں اور والدین کے درمیان ملاقات کی اجازت دینے والے رہنما خطوط کا حوالہ دیتے ہوئے رابطہ ملاقات کیلئے باضابطہ طور پر متعدد درخواستیں دیں۔ لیکن آئی سی ای اور جیل کانٹریکٹر جیو گروپ نے ان درخواستوں کو مسترد کردیا اور جیل میں "بلینکیٹ نو کانٹیکٹ وزٹیشن پالیسی" اور ایک ماں اور نومولود بچے کی غیر محفوظ علاقے میں موجودگی سے متعلق مبہم "سیکیورٹی خدشات" کا حوالہ دیا۔ سی سی آر کے قانونی ڈائریکٹر باحر عزمی نے وفاقی حکومت پر الزام لگایا کہ خلیل کو فلسطینی انسانی حقوق کی حمایت کی سزا دینے کیلئے ہزاروں میل دور واقع حراستی مرکز میں رکھنے کا انتخاب کیا گیا ہے۔

نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، نیو جرسی کے وفاقی جج مائیکل ای فاربیارز نے بدھ کو حکم دیا تھا کہ خلیل کو ان کی اہلیہ اور وکلاء کے ساتھ ایک ملاقات کی اجازت دی جائے۔ تاہم، اس حکم میں واضح طور پر انہیں اپنے نومولود بیٹے کو دیکھنے یا گود میں لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ حکومت نے عدالت میں دلیل دی کہ خلیل کو اپنے بیٹے کے ساتھ رابطہ یا ملاقات کی اجازت دینا، خصوصی سلوک کے مترادف ہوگا جو دیگر زیر حراست افراد کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔ آئی سی ای حکام نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ نومولود اور ماں کو جیل میں داخل ہونے کی اجازت دینا غیر محفوظ ہے کیونکہ یہ سہولت خواتین یا نابالغوں کو رکھنے کیلئے نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ کیخلاف اسرائیل پرعالمی دباؤ میں غیر معمولی اضافہ

فلسطین نواز آوازوں کو دبانے کی کوشش

یاد رہے کہ محمود خلیل کی گرفتاری امریکہ میں فلسطین نواز آوازوں پر طویل کریک ڈاؤن کا پہلا واقعہ تھا۔ خلیل کی گرفتاری کے چند دن بعد، ایک اور فلسطین نواز طالب علم اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ہندوستانی محقق بدر خان سوری کو گرفتار کیا گیا۔ ان کے وکیل نے بتایا کہ سوری کی گرفتاری، ان کی اہلیہ کی فلسطینی شناخت کی وجہ سے ہوئی۔ سوری کی گرفتاری کے بعد، حکام نے ایک اور فلسطین حامی طالب علم، موموڈو طعال کو خود کو پیش کرنے کیلئے کہا۔ ۲۵ مارچ کو ٹفٹس یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی طالبہ رومیسہ اوزترک کو غزہ میں اسرائیل کے قتل عام کی تنقید کرنے پر امریکی حکام نے دن دہاڑے اغوا کر لیا۔ اس کے بعد، ۱۴ اپریل کو حکام نے فلسطینی کارکن محسن مہدوی کو ان کے شہریت کے انٹرویو کے دوران گرفتار کیا گیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK