اقوام متحدہ کی عالمی عدالت آج ۱۹۶۷ء سے فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے قانونی نتائج پر سماعت کرے گی جس میں ۵۲؍ ممالک کے ثبوت پیش کرنے کے امکانات ہیں۔ایک ہفتے تک جاری رہنے والے اس سیشن میں جج کے سامنے امریکہ ، روس اور چین اپنے بیانات پیش کریں گے۔
EPAPER
Updated: February 19, 2024, 4:07 PM IST | Jerusalem
اقوام متحدہ کی عالمی عدالت آج ۱۹۶۷ء سے فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے قانونی نتائج پر سماعت کرے گی جس میں ۵۲؍ ممالک کے ثبوت پیش کرنے کے امکانات ہیں۔ایک ہفتے تک جاری رہنے والے اس سیشن میں جج کے سامنے امریکہ ، روس اور چین اپنے بیانات پیش کریں گے۔
اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت آج سے ۱۹۶۷ء سے فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے قانونی نتائج پر سماعت شروع کرے گی جس میں ۵۲؍ ممالک کے ثبوت پیش کرنے کے امکانات ہیں۔ ہیگ کے پیس پیلس میں پیر سے شروع ہونے والی اس سماعت میں امریکہ ، روس اور چین ایک ہفتے پر مبنی اس سیشن میں جج کے سامنےاپنے بیانات پیش کریں گے۔ دسمبر ۲۰۲۲ءکو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی عدالت انصاف سے ’’مقبوضہ فلسطینی علاقوں، جن میں مشرقی یروشلم بھی شامل ہے، پر اسرائیل قبضے اور اس کی پالیسی کےقانونی نتائج ‘‘ کے تعلق سے ایسا قانونی مشورہ مانگا تھا جس پر عمل درآمد لازمی نہ ہو۔حالانکہ عالمی عدالت کا کوئی بھی مشورہ اسرائیل کیلئے لازمی نہیں ہوگا مگر یہ ایسےوقت میں آ رہا ہے جب اسرائیل پر ۷؍ اکتوبر کے حملوں کے بعد غیر معمولی عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
The top UN court commences six days of hearings focusing on Israel`s open-ended occupation in the West Bank, East Jerusalem, and its war on Gaza
— TRT World (@trtworld) February 19, 2024
Follow our live coverage 👇https://t.co/SZMsQTvHWA
یہ سماعت جنوبی افریقہ کے ہائی پروفائل کیس سے الگ ہے, جس نے اسرائیل پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ غزہ میں حالیہ جنگ میں نسل کشی کی کارروائیاں کر رہا ہے۔ اسرائیل نے ان سماعتوں میں شریک ہونے سے انکار کر دیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی ۲۰۲۲ء کی درخواست پر غصہ کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نتین یاہو نےاسے حقیر اور ذلت آمیز قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی تجویز کے بعد اسرائیل نے فلسطینی انتظامیہ کے خلاف پابندیوں کا سلسلہ جاری کیا تھا تاکہ اسے دباؤ ڈالنے کی قیمت چکانی پڑے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کی امریکہ نے پھر مخالفت کی
اقوام متحدہ نے آئی سی جے سے کہا تھا کہ وہ ۲؍ سوالوں پر غور کرے۔ پہلا یہ کہ عدالت خود قانونی نتائج کا مشاہدہ کرے گی جسے اقوام متحدہ نے’’فلسطینی عوام کی حق خود ارادیت کی اسرائیل کی جانب سے جاری خلاف ورزی قرار دیا تھا۔‘‘
یہ اسرائیل کے ۱۹۶۷ء سے فلسطین علاقوں پر لمبے عرصے تک جاری رہنے والا قبضہ ،نوآبادی اور الحاق اور یروشلم کے مقدس شہر کی آبادیاتی ساخت، کردار اور حیثیت کو تبدیل کرنے کیلئے کئے گئے اقدامات سے متعلق ہے۔آئی سی جے سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کےـ’’متعلقہ امتیازی قانون سازی اور اقدامات کو اپنانے‘‘ کے طور پر بیان کئے جانے والے نتائج کا جائزہ لے۔دوسری جانب آئی سی جے مشورہ دے کہ کس طرح اسرائیل نے قبضے کےقانونی معیار کو متاثر کیا ہےاور اس کے اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کیلئے کیا نتائج ہیں۔