اقوام متحدہ کے مائن ایکشن سروس کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ غزہ میں ۲۳؍ لاکھ سے زیادہ آبادی کے گھر ملبے میں تبدیل ہوچکے ہیں۔
EPAPER
Updated: April 29, 2024, 11:01 AM IST | Agency | New York /Ramallah
اقوام متحدہ کے مائن ایکشن سروس کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ غزہ میں ۲۳؍ لاکھ سے زیادہ آبادی کے گھر ملبے میں تبدیل ہوچکے ہیں۔
اسرائیل کی غزہ میں جنگ کے سبب ہونے والی بدترین تباہی کے بارے میں اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ `غزہ سے ملبہ اٹھانے میں ۱۴؍ سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جمعہ کو کہا گیا تھا کہ پورے غزہ میں ہر طرف ملبے کا ڈھیر ہے۔ ۷؍ اکتوبر سے اب تک تقریبا ۷؍ ماہ کے دوران اسرائیلی فوج نے غزہ پر فضائی اور زمینی حملوں کے نتیجے میں ہر طرف تباہی پھیلا دی ہے۔ ۲۳؍ لاکھ سے زیادہ کی آبادی کی غالب اکثریت کے گھر ملبے میں تبدیل ہوچکے ہیں اور ۱۵؍ لاکھ بے گھر فلسطینی رفح میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی بمباری سے اتنے وسیع پیمانے پر کی گئی تباہی کے بعد غزہ کا بڑا علاقہ ایسی بستی میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں گھر نہیں بلکہ صرف ملبے کا ڈھیر ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق بے گھر کر دیے گئے افراد کے پاس چھت ہے نہ کھانے کو خوراک۔ اقوام متحدہ کے مائن ایکشن سروس کے ایک ذمہ دار نے غزہ میں تباہی اور ملبے کے بارے میں جنیوا میں دی گئی بریفنگ میں بتایا ہے کہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں تقریباً۳۷؍ملین ٹن ملبہ غزہ کی گلیوں اور بازاروں میں زمین پر موجود ہے۔
خیال رہے کہ غزہ کی آبادی دنیا کی شہری آبادیوں میں سے گنجان ترین آبادی تھی جسے اسرائیل نے تباہ کر دیا ہے۔ مائن ایکشن سروس کے ذمہ دار پیہر لودھمار نے مزید کہا کہ جتنا ملبہ غزہ میں موجود ہے اسے اٹھانے میں ۱۴؍ سال کا عرصہ درکار ہو گا، تب جا کر غزہ کو ملبے سے خالی کیا جا سکے گا۔ انہوں نے مزید کہا یہ درست اندازہ لگانا تو مشکل ہے کہ غزہ میں کس قدر گولہ بارود استعمال ہوا مگر ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ کل استعمال شدہ گولہ بارود کا ۱۰؍ فیصد پھٹے بغیر ملبے کا ڈھیر بن جاتا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ اس ۱۴؍ سال کی مدت میں ۱۰۰؍ ٹرکوں کے استعمال سے ملبہ صاف کیاجاسکے گا۔