اسرائیلی حکومت کےو زراء ایسے منصوبوں اورتجویزوں پرغور کررہے ہیں کہ اگرحماس جنگ بندی پر راضی نہ ہوا توامداد کی ترسیل کے ساتھ غزہ پرحملے بھی جاری رکھے جائیں گے۔
EPAPER
Updated: August 03, 2025, 11:07 AM IST | Gaza
اسرائیلی حکومت کےو زراء ایسے منصوبوں اورتجویزوں پرغور کررہے ہیں کہ اگرحماس جنگ بندی پر راضی نہ ہوا توامداد کی ترسیل کے ساتھ غزہ پرحملے بھی جاری رکھے جائیں گے۔
کچھ با خبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اگر مزاحمتی تنظیم حماس جنگ بندی معاہدہ پر راضی نہ ہوئی تو ایک تجویز یہ ہے کہ غزہ شہر اور دیگر آبادی والے مراکز کا محاصرہ کر لیا جائے جب کہ ایک اور تجویز شہر پر حملے کی بھی ہے۔ ذرائع کے مطابق متعدد اسرائیلی وزراء مختلف منصوبوں اور تجویزوں کی حمایت کر رہے ہیں ۔ یہ فیصلہ ان مذاکرات کی تعطل کا شکار کیفیت کے تناظر میں ہے جو جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے جاری ہیں اگرچہ ثالثوں کی کوششیں جاری ہیں۔ یہ صورت حال اس داخلی اختلاف کا حصہ ہے جو اسرائیلی حکومت میں غزہ میں آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے موجود ہے۔ گزشتہ جمعرات کو ایک سینئر اسرائیلی عہدیدار نے واضح کیا تھا کہ اسرائیل اور امریکہ، حماس کے جواب کے بعد غزہ کے حوالے سے ایک نئے مفاہمتی خاکے پر کام کر رہے ہیں۔ اس عہدے دار نے مزید کہا تھا کہ دونوں اتحادی ممالک بیک وقت غزہ میں انسانی امداد میں اضافے کی کوششیں بھی جاری رکھیں گے جبکہ فوجی کارروائیاں بھی جاری رہیں گی۔ اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال ضمیر نے جمعہ کے روز اعلان کیا کہ چند دنوں میں یہ واضح ہو جائے گا کہ کیا کسی معاہدے تک پہنچنا ممکن ہے یا نہیں، بصورت دیگر جنگ جاری رہے گی۔ انہوں نے غزہ میں ایک فیلڈ وزٹ کے دوران کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ہم آئندہ چند دنوں میں جان لیں گے کہ آیا یرغمالوں کی رہائی کے لیے کوئی جزوی معاہدہ ممکن ہے یا نہیں ، اگر ایسا نہ ہوا تو جنگ پوری شدت سے جاری رہے گی۔ حالیہ مذاکرات کا نیا دور ۶؍جولائی کو امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی میں شروع ہوا تھا جس کا مقصد۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے جاری جنگ کو روکنا ہے، تاہم یہ مذاکرات گزشتہ ہفتے کسی واضح پیش رفت کے بغیر ختم ہو گئے۔ اسرائیلی فریق غزہ سے مکمل انخلاء کو ماننے سے انکاری ہے، جبکہ حماس اسی مطالبے پر قائم ہے۔
اسی طرح اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ امدادی سامان کی تقسیم ’غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن‘ کے ذریعہ جاری رہے، جبکہ حماس چاہتی ہے کہ اس عمل کی نگرانی اقوام متحدہ کی تنظیموں کے سپرد کی جائےکیونکہ غزہ کے کئی علاقوں میں غذائی قلت اور’ قحط‘ کی صورتحال پائی جاتی ہے۔
امریکی ایلچی کا غزہ کادورہ پہلےسے تیار کیاگیا ڈراما ہے : حماس
اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے امریکہ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے ان امداد کی تقسیم کے مراکز کے دورے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو ’غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن ‘ کے زیر انتظام چلائے جا رہے ہیں۔ حماس نے اسے ایک ’پہلے سے تیار کردہ ڈراما ‘قرار دیا جو ’عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے، قابض اسرائیل کی شبیہ کو سنوارنے اور اسے بھوک کے انتظام و معصوم بچوں و نہتے شہریوں کی منظم نسل کشی کے لیے سیاسی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش‘ ہے۔
تصاویرزمینی حقائق کے برعکس ہیں
حماس نے ایک باضابطہ بیان میں واضح کیا کہ وٹکوف کی ’گمراہ کن اور فریب دہ ‘ بیانات ان پروپیگنڈہ تصاویر کے ساتھ جن میں امداد کی پرامن تقسیم کا تاثر دینے کی کوشش کی گئی دراصل زمینی حقائق کے منافی ہیں ۔ بیان میں کہا گیا کہ’’قابض اسرائیل کی فوج اور اس انسانیت دشمن نام نہاد غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کے اہلکاروں کی گولیوں سے اب تک۱۳۰۰؍سے زائد فاقہ کشی کے شکار معصوم شہری شہید ہو چکے ہیں۔ یہ ادارہ قتل عام کے نئے ابواب مکمل کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ ‘‘
حماس نے زور دے کر کہا کہ امریکہ غزہ میں جاری نسل کشی اور بھوک کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرنے میں برابر کا شریک ہے اور مطالبہ کیا کہ وہ اس جرمِ سے پردہ ہٹائے، اپنی تاریخی ذمہ داری ادا کرے اور فوری جنگ بندی کے معاہدے کی طرف بڑھے جس کے نتیجے میں جارحیت رکے، قابض فوج غزہ سے نکلے اور ہمارے مظلوم عوام پر مسلط ظالمانہ محاصرہ ختم ہو۔
حماس نے مزید خبردار کیا کہ امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی پالیسیوں اور اس کی درندگی کی مسلسل پشت پناہی نہ صرف انسانی بحران کو مزید سنگین بناتی ہے بلکہ فلسطین اور پورے خطے میں تنازع کے دوام اور شدت کا سبب بھی بنتی ہے۔ حماس نے ان میڈیا رپورٹس کی سختی سے تردید کی جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ حماس نے اپنے ہتھیار ڈالنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
تحریک نے اپنے بیان میں دو ٹوک انداز میں واضح کیا کہ ’’جب تک قابض اسرائیل کا وجود باقی ہے۔ فلسطینی مزاحمت اور اس کا اسلحہ ایک قومی اور قانونی حق ہے، جس کی توثیق عالمی قوانین اور معاہدوں نے بھی کی ہے۔ ہم اپنے حقوق کی مکمل بحالی کے بغیر اس مزاحمت سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ ‘‘