Inquilab Logo

جذباتی مذہبی نعروں سے پرے بیروزگاری ہندوستان کا سنگین مسئلہ ہے: انتخابات سے قبل ایک جائزہ

Updated: April 12, 2024, 9:05 PM IST | Mumbai

ایک رپورٹ کے مطابق سیاستدانوں کے مذہبی اور جذباتی نعروں سے پرے ہندوستانی نوجوانوں کیلئے روزگار ایک اہم موضوع۔ مودی حکومت نوجوانوں کو ملازمت فراہم کرانے میں ناکام رہی ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت مایوس، اور سیاستدانوں کو ارب پتیوں کے ہاتھوں کا کھلونا قرار دیا، اس کے علاوہ حکومت کی پالیسی کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک ہندوستان میں لوک سبھا انتخابات کا پہلا مرحلہ ۱۹؍ اپریل سے شروع ہوگا۔ ملک میں بے شمار ٹھوس مسائل ہیں جن میں سے ایک بے روزگاری ہے۔ ہندوستان تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت ہے لیکن یہاں کے پڑھے لکھے نوجوانوں کیلئے اب بھی با وقار ملازمتیں نہیں ہیں۔ 
ممبئی کے مضافاتی علاقوں میں جاری ایک روز گار مرکز میں ۲۷؍سالہ مہیش بھوپلے ایک اچھی تنخواہ والی سرکاری پوسٹ کا خواب دیکھ رہے ہیں، ان کی طرح لاکھوں دوسرے بے روزگار گریجویٹس بھی جاب کے متلاشی ہیں۔ حیاتیات میں گریجویٹ کرنے والے بھوپلےکا کہنا ہے کہ ’’اس زندگی سے نکلنے کا واحدحل سرکاری نوکری ہے اور مراعات ہیں۔ ‘‘ انہوں نے سول سروس کے سخت امتحانات کی تیاری کرتے ہوئے ایک درزی کےمعاون سے لے کر سیکوریٹی گارڈ تک جز وقتی ملازمتوں میں زندگی گزاری ہے۔ گاؤں سے بڑے شہر میں ملازمت کی تلاش میں آئے ہوئے بھوپلے نے کہا کہ نجی شعبے میں اپنی درخواست کو آگے بڑھانے کیلئے ان کے پاس رابطوں کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم جیسے دیہات کے پڑھے لکھے لوگوں کو زیادہ معاوضہ دینے والی نجی شعبے کی نوکریاں نہیں مل سکتیں۔ لہٰذا سرکاری ملازمت بہترین قسم کی نوکری ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: مذہبی تبدیلی کو قانونی بنانے کیلئے معتبر ثبوت کی ضرورت ہے: الہ آباد ہائی کورٹ

وہ اکیلے نہیں ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ ۲۰۲۲ءمیں ہندوستان کے۲۹؍ فیصد نوجوان یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ یہ شرح ڈپلوما کے بغیر ان لوگوں کے مقابلے میں تقریباً نو گنا زیادہ ہے، جو عام طور پر کم تنخواہ والی ملازمت یا تعمیراتی شعبوں میں کام تلاش کرتے ہیں۔ 

بڑھتی آبادی
سرکاری صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کے ۴ء۱؍ بلین لوگوں میں سے نصف سے زیادہ کی عمر ۳۰؍سال سے کم ہے۔ ممبئی کے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز سے تعلق رکھنے والے ترقیاتی ماہر معاشیات آر راما کمار نے کہا کہ ملازمتوں کے مواقع اتنی تیزی سے نہیں بڑھ رہے ہیں جتنی کہ ممکنہ افرادی قوت آبادی کے لحاظ سے پھیل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو سرکاری ملازمتوں میں کم اسامیوں کیلئے درخواست دہندگان کی بڑی تعداد نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ یا کنیڈا میں ملازمتوں کی تلاش میں غیر قانونی ذرائع سے ہندوستان سے باہر جانے کیلئے لوگوں کی بڑی تعداد کی یہی وجہ ہے۔ 
وزیر اعظم نریندر مودی ایپل اور ڈیل جیسی عالمی ٹیک کمپنیوں کو ہندوستان میں قیام پر راضی کرنے میں اپنی کامیابی گردانتے ہیں۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ مینوفیکچرنگ میں لاکھوں ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے میں ناکام رہے، جس کا لوگ مطالبہ کررہے ہیں۔ ورلڈ بینک نے اس ماہ متنبہ کیا تھا کہ ہندوستان دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کی طرح ’’اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی کام کرنے کی عمر کی آبادی کی مناسبت سے ملازمتیں پیدا نہیں کر رہا ہے۔‘‘
بینک کی علاقائی چیف اکنامسٹ، فرانزیسکا اوہنسورج نے کہا کہ جنوبی ایشیا اپنی آبادی کا خا طرخواہ فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ اور اسے گنوایا ہوا موقع قرار دیا۔ بہت سے نوجوان ہندوستانیوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سرکاری ملازمتوں کی جنونی دوڑ میں شامل ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، جو معقول تنخواہ، فوائد اورمسقبل کی ضامن ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: نامساعد حالات میں ہندوستانی عوام کی اکثریت مذہبی تکثیریت کی حامی: رپورٹ

زبردست مقابلہ
مثال کے طور پر ریاست کے زیر انتظام انڈین ریلویز کو سیکڑوں ہزاروں درمیانی یا نچلی سطح کی ملازمتوں کیلئے لاکھوں درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔ ۳۴؍سالہ گنیش گور جنہوں نے پانچ بار سول سروس کے امتحان میں شرکت کی اور ناکام رہے، نے کہا کہ’’ کوئی بھی پارٹی یا سیاستداں ہماری مدد نہیں کرتا، وہ وہاں پیسے کھانے بیٹھے ہیں۔ ‘‘
۲۰۲۲ءمیں حکومت کے ذریعےکچھ مستقل فوجی ملازمتوں کو عارضی معاہدوں میں تبدیل کرنے کے بعد پرتشدد مظاہرے شروع ہوئےاور مشتعل نو جوانوں نے ریلوے ٹرینوں کو آگ لگا دی۔ 

خطرے والی ملازمتیں کرنے کو بھی تیار
 نو جوانوں کو ملازمت کے حصول کی اس قدر ضرورت ہے کہ اس سال کے شروع میں غزہ جنگ کی وجہ سے اسرائیل میں پیدا شدہ مزدوروں کی قلت کے بعد ہزاروں افراد اسرائیل میں ملازمتوں کیلئے درخواستیں جمع کرانے کیلئے قطار میں کھڑے پائے گئے۔ 

کروڑ پتی اور ارب پتی
ہندوستان ۲۰۲۲ءمیں برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بن گیا، اور اکتوبردسمبر سہ ماہی میں مضبوط۴ء۸؍ فیصد کے ساتھ ترقی کی، جس نےمینوفیکچرنگ شعبے میں اضافہ میں مدد کی۔ لیکن بہت سے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ مواقع کی کمی کی وجہ سے مایوس ہیں۔ دسمبر ۲۰۲۳ء میں مظاہرین نے بے روزگاری کی جانب توجہ مبذول کرانے کیلئے حکومت مخالف نعرے لگاتے ہوئے پارلیمنٹ میں دھوئیں کے کنستر پھینکے۔ 
سرسوتی دیوی، جن کی بیٹی نیلم کو احتجاج کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، نے کہا کہ وہ نوکری نہ ملنے پر پریشان تھی۔ سرسوتی نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ’’وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، لیکن نوکری نہیں مل رہی تھی.... وہ اکثر کہتی تھی کہ اتنا پڑھ کر بھی مجھے مر جانا چاہئے۔ میں دو وقت کے کھانے کی اہل نہیں ہوں۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: اقوام متحدہ: سلامتی کاؤنسل میں فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ ایک مرتبہ پھر ناکام

 لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا بے روزگاری پر غصہ مودی کی حکمراں جماعت مخالف ووٹوں میں تبدیل ہوگا۔ دہلی میں قائم لوک نیتی؛ سی ایس ڈی ایس ریسرچ سینٹر کے مطابق دہلی کے طلبہ کے مارچ کے سروے میں صرف ۳۰؍فیصد لوگوں نے بیروزگاری کی بلند شرح کیلئے مودی حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا۔ لیکن گور جیسے کچھ ناکام نو جوان سیاستدانوں کو بڑے امیروں کا آلہ کار سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ وسیع تر ملکی مفادات کی حمایت کیے بغیر قومی ترقی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بی جے پی حکومت پر براہ راست الزام لگانے سے بچتے ہوئےگور نے کہا کہ ملک کو مٹھی بھر کروڑ پتی اور ارب پتی چلا رہے ہیں لہٰذا سیاستدانوں کے پاس زیادہ اختیار نہیں ہوتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK