اِن ماہرین معیشت نے تشویش ظاہر کی کہ منریگا روزگار کے قانونی حق، دیہی معیشت اور سماجی انصاف کیلئے ناگزیر ہے ،اسے ختم کرنا سرکار کی تاریخی غلطی ہوگی۔
مرکز کے فیصلے کیخلاف پورے ملک میں احتجاج ہو رہا ہے۔ تصویر میں بنگلور میں وزیر اعلیٰ سدارمیا اور نائب وزیر اعلیٰ شیو کمار سمیت پوری کابینہ کو گاندھی جی کے مجسمے کے پاس احتجاج کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ تصویر: پی ٹی آئی
مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ (منریگا) کو ختم کرکےاس کی جگہ ’جی رام جی‘ کے نام سے نئی اسکیم متعارف کرانے کے مرکزی حکومت کے فیصلے پر عالمی سطح کے نامور ماہرین معیشت، پالیسی سازوں ، وکلاء اور سول سوسائٹی سے وابستہ شخصیات نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان ماہرین نے ایک کھلے خط لکھتے ہوئے منریگا قانون کی بھرپور حمایت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایسی اسکیم کو ختم نہ کیا جائے جو طلب پر مبنی ہو اور روزگار کو ایک قانونی حق کے طور پر نافذ کرتی ہو۔
خط میں کیا کہا گیا ہے؟
کھلے خط میں لکھا گیاہے کہ منریگا کو ملک کی پارلیمنٹ نے مکمل اتفاقِ رائے سے منظور کیا تھا اور یہ قانون سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر تمام جماعتوں کی مشترکہ تائید کا حامل رہا ہے۔ خط کے مطابق منریگا کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو روزگار کی ضمانت فراہم کرے کیونکہ روزگار معاشی وقار سے جڑا ہوا ایک بنیادی حق ہے۔ ماہرین نے کہا کہ منریگا کے عملی نتائج اس اصول کی کامیابی کا واضح ثبوت رہے ہیں۔اس لئے اسے بند کردینا اس کامیابی سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔ حکومت کو اسے بند کرنے پر دوبارہ غور کرنا چاہئے۔
دیہی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی
خط میں بتایا گیا ہے کہ منریگا کے تحت ہر سال تقریباً ۵؍کروڑ خاندانوں کو روزگار فراہم کیا جاتا رہا ہے جس نے دیہی معیشت میں نمایاں تبدیلی پیدا کی۔ اس اسکیم میں شامل مزدوروں میں نصف سے زیادہ تعداد خواتین کی رہی ہے جبکہ تقریباً ۴۰؍ فیصد مستفید افراد کا تعلق درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل سے ہے۔ ابتدائی برسوں میں منریگا کی وجہ سے دیہی علاقوں میں اجرت میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا اور مختلف تحقیقی مطالعات میں اس اسکیم کے معاشی پیداوار اور کارکردگی پر مثبت اثرات کی تصدیق کی گئی۔
وقت کے ساتھ منریگا بہتر ہوا
ماہرین نے اپنے خط میں بتایا کہ وقت کے ساتھ ساتھ منریگا سے متعلق پھیلائی گئی کئی غلط فہمیاں بھی تحقیقی شواہد کے ذریعے دور ہوئیں۔ اس کے باوجود خط میں اعتراف کیا گیا ہے کہ طویل عرصے سے فنڈ کی کمی اور اجرتوں کی ادائیگی میں تاخیر نے اس اسکیم کے نفاذ میں مشکلات پیدا کیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اب منریگا کو ریاستوں کے سپرد کرنا وہ بھی بغیر مناسب مالی تعاون کے، اس کے وجود کیلئے ایک سنگین خطرہ بن گیا ہے۔
نئےقانون پر تنقیدیں
کھلے خط میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ریاستوں کے پاس مرکزی حکومت جیسی مالی صلاحیت نہیں ہوتی۔ منریگا کی جگہ متعارف کرائے گئے نئے بل میں جو فنڈنگ ماڈل پیش کیا گیا ہے وہ ایک خطرناک صورتحال کو جنم دیتا ہے۔ اس ماڈل کے تحت ایک جانب ریاستوں پر روزگار فراہم کرنے کی قانونی ذمہ داری عائد کی جا رہی ہے، جبکہ دوسری جانب مرکزی حکومت اپنی مالی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہے۔
ریاستوں پر بوجھ
ماہرین کے کھلے خط میں وضاحت کی گئی ہے کہ پہلے ریاستوں کو صرف مواد کی لاگت کا تقریباً ۲۵؍ فیصد حصہ برداشت کرنا پڑتا تھا لیکن نئے نظام میں انہیں کل لاگت کا ۴۰؍ فیصد سے لے کر ۱۰۰؍ فیصد تک بوجھ اٹھانا ہوگا۔ اس تبدیلی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ مالی طور پر کمزور یا غریب ریاستیں منصوبوں کی منظوری کم کریں گی جس سے براہِ راست روزگار کی مانگ متاثر ہوگی اور دیہی مزدوروں کیلئے کام کے مواقع گھٹ جائیں گے۔
کئی تکنیکی خامیاں گنوائیں
ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ نئے بل میں شامل ساختی تبدیلیاں مزید تشویشناک ہیں خاص طور پر وہ دفعات جو حکومت کو کسی بھی وقت اسکیم کو معطل کرنے یا اس کی ضمانت ختم کرنے کے اختیارات دیتی ہیں۔ خط میں مغربی بنگال کی مثال دی گئی ہے، جہاں گزشتہ ۳؍برسوں سے بغیر کسی واضح وجہ کے فنڈ روک دیا گیا ہے۔ اسے اختیارات کا غلط استعمال قرار دیا گیا۔