محترم جناب کرن رجیجو صاحب،آداب! ہندوستان اور بیرونِ ملک کروڑوں اردو چاہنے والوں کی طرح مجھے بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے یومِ تاسیس کے موقع پر آپ کا خطاب بہت پسند آیا۔
مرکزی وزیر کرن رجیجو نے جامعہ کے یوم تاسیس کے پروگرام میں شرکت کی تھی۔ تصویر: آئی این این
محترم جناب کرن رجیجو صاحب،آداب! ہندوستان اور بیرونِ ملک کروڑوں اردو چاہنے والوں کی طرح مجھے بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے یومِ تاسیس کے موقع پر آپ کا خطاب بہت پسند آیا۔ دل خوش ہوگیا۔جن خوبصورت باتوں کا آپ نے اپنی تقریر میں اظہار کیا، اُن میں آپ کا یہ جملہ کہ ’’اردو دنیا کی سب سے خوبصورت زبان ہے ‘‘ بالکل درست تبصرہ ہے ۔ واقعی اردو شیریں زبان ہے۔ معلوم نہیں کہ جامعہ والوں نے آپ کو بتایا یا نہیں، مگر جامعہ کے بانیان میں سے ایک مولانا محمد علی جوہر نہ صرف ایک عظیم مجاہد آزادی تھے بلکہ اردو اور انگریزی دونوں کے نہایت بلند پایہ صحافی اور ادیب بھی تھے۔ ان کی نثر اپنی شگفتگی اور قوتِ اظہار کا جواب نہ رکھتی تھی اور ان کا شعری اسلوب بھی نہایت توانا تھا۔تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں شہید ہونے والے اولین ہندوستانی صحافی بھی ایک اردو صحافی تھے۔ مولوی محمد باقر، جن کا اخبار بھی اردو کا ہی اخبار تھا ۔ ۱۸۵۷ء کی پہلی جنگِ آزادی کے دوران ان پر بغاوت کاالزام لگا کر انہیں بغیر مقدمے کے شہید کردیا گیا۔ کیا ’’سرکاری‘‘ ہندوستان انہیں یاد کرتا ہے؟اردو نے ہماری تحریک آزادی اور ہماری تہذیب و ثقافت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔ رجیجو صاحب! بس ایک لمحہ ٹھہر کر غور کیجئے کہ وہ انقلابی نعرہ’’انقلاب زندہ باد‘‘ ہمیں کس زبان نےدیا؟
جناب، میں نے آپ کی تقریر سنی بھی اور بعد میں اخبارات میں پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا۔ آپ کا اپنی اردو دانی کی کمی کا اعتراف نہایت دیانت اور سادگی کی علامت تھا۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں ہر انسان کے لئے ہر زبان اور ہر لہجہ سیکھنا ممکن نہیں ہے۔ ہندوستان کی خوبصورتی تو اسی تنوع اور تکثیریت میں ہے۔ ہماری تمام زبانیں اس رنگا رنگی کو اور بھی حسین بناتی ہیں۔ تاہم، اگر اجازت ہو تو یہاں ایک حقیقت کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ہمارے سماج کا ایک طبقہ اردو کو ایک خاص مذہب کی زبان سمجھ کر اس سے نہ صرف دوری اختیار کرلیتا ہے بلکہ جگہ جگہ اس کی مخالفت بھی کرتا ہے۔ اُس برادری سے، جس میں اردو بولنے ،لکھنے اور پڑھنے والوں کی اکثریت ہے، نفرت کے زیر اثر وہ طبقہ اردو سے بھی نفرت کرتاہے۔ وہی اردو جسے آپ دنیا کی سب سے خوبصورت زبان کہتے ہیں۔ افسوس کہ اسی زبان کو اس کے اپنے وطن میں اجنبی بنا دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسے پڑھانے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی کوششوں میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔
جناب! کوئی بھی زبان اُس وقت تک پنپ نہیں سکتی جب تک اسے ریاستی سرپرستی میسر نہ ہو۔یہ بات صرف اصول کی نہیںعمل کی بھی مثال ہمارے سامنے ہے۔مہاراشٹر کی راجدھانی اور اس وقت اردو کے سب سے بڑے مراکز میں سے ایک عروس البلاد ممبئی میں اردو سیکھنے کے لئے شہری انتظامیہ نے ایک مرکز کے قیام کا منصوبہ منظور کیا تھا ۔ جس کا مقصد اردو اور مراٹھی بولنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور زبان سکھانے کی سہولت فراہم کرنا تھا۔ اس اردو لرننگ سینٹر کی عمارت کا تقریباً ۴۰؍فیصد حصہ بھی تعمیر ہو چکا تھا۔ مگر پھر چند ’’ مفاد پرست اورمنتخب لیڈروں کو یہ منصوبہ ناگوار گزرا اور انہوں نے اسے منسوخ کروادیا۔ اس کی تفصیل اخبارات میں موجود ہے ۔ میری آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اس فیصلے پر نظرِ ثانی کے لیے مہاراشٹر حکومت اور ممبئی میونسپل کارپوریشن کو خط لکھیں۔کم از کم اتنی توقع تو ہم آپ سے ضرور رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ زبان اپنے ملک میں زندہ بھی رہے اور سانس بھی لے ۔آپ کی توجہ کا شکریہ۔خیراندیش ،ایک ادنیٰ اردو دوست۔(مکتوب نگار ’ٹائمز آف انڈیا کے سینئر صحافی ہیں)