• Tue, 11 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

صرف اپنے لئے نہیں، اپنے ملک کیلئے بھی دوڑ رہا ہوں: فلسطینی ایتھلیٹ محمد دویدار

Updated: September 21, 2025, 10:06 PM IST | Tokyo

جاپان میں منعقدہ۲۰؍ ویں عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں فلسطین کی نمائندگی کرنے والے واحد کھلاڑی محمد دویدار نے سنیچر کو کہا کہ وہ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے ملک کے لیے دوڑ رہے ہیں۔

Mohammad Dwedar, the only athlete to represent Palestine at the World Athletics Championships. Photo: X
عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں فلسطین کی نمائندگی کرنے والے واحد کھلاڑی محمد دویدار۔ تصویر: ایکس

ٹوکیو میں مردوں کے۸۰۰؍ میٹر ہیٹس میں حصہ لینے کے بعد دویدار نے انادولو کو بتایا کہ ’’میں ایسی دوڑ میں شامل ہوا جسے میں ہار نہیں سکتا۔ میں کیسے ہار سکتا ہوں ،جب میں نے آغاز ہی صفر سے کیا؟ جب میں دوڑتا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ میں اس جھنڈے کے لیے کچھ کر رہا ہوں۔‘‘
دویدار، جنہوں نے اولمپکس میں بھی حصہ لیا، نے عالمی سطح پر فلسطین کا پرچم لے کر دوڑنے کو اعزازسے تعبیر کیا۔انہوں نے کہا کہ ’’میں عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں فلسطین کی نمائندگی کرتے ہوئے بہت خوش ہوں۔ میرے جذبات بہت ملے جلے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ میرے ملک میں کیا چل رہا ہے۔ میں نے تیاری کا ایک بہت مشکل مرحلہ طے کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’’مجھے عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں فلسطین جیسے ملک کی نمائندگی کرنے پر بہت فخر ہے۔ یہ میرے لیے زندگی بھر کا اعزاز ہوگا۔ میں چیمپئن شپ میں حصہ لینے والا فلسطین کا واحد کھلاڑی ہوں کیونکہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ہمارے پاس تربیت حاصل کرنے کے لیے کوئی ریس ٹریک نہیں ہیں۔
دویدار نے کہا کہ’’ ٹوکیو کا ماحول اور ساتھی کھلاڑیوں کی حمایت نے ان کے حوصلے بلند کیے، ٹوکیو میں جن کھلاڑیوں کے ساتھ میں نے مقابلہ کیا، وہ میرے دوست تھے، اور میرے لیے بہت مددگار اور معاون تھے۔‘‘دویدار نے یاد کیا کہ ان کی بہن نے سب سے پہلے انہیں دوڑنے کی ترغیب دی۔وہ بھی ایک رنر تھیں۔ جب وہ اپنی بہن کی ٹیم کو دیکھنے گئے تو اس نے کہا، `تم بھی دوڑ سکتے ہو، مجھے دوڑنا پسند ہے۔ دوڑنا میری زندگی کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد سے میں نے کبھی دوڑنا نہیں چھوڑا۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ’’ مشکلات کے باوجود، میں نے لگن کے ساتھ تیاری کی ۔ مجھے دوڑ سے پہلے یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ میں فلسطین کے لیے بہت افسردہ ہوں، لیکن مجھے دوڑ کے دوران توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ آپ ایک سیکنڈ کے نقصان کی بھی بھر پائی نہیں کر سکتے۔ میں ٹیلی ویژن نہیں دیکھتا اور نہ ہی اپنا فون چیک کرتا ہوں کیونکہ ان میں صرف افسوسناک خبریں ہی نشر کی جاتی ہیں۔ مجھے دوڑ پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
دویدار نے غزہ کے کھیلوں کے حلقے پر اسرائیل کے جاری حملوں کے تباہ کن اثرات کے بارے میں بات کی۔انہوں نے کہا کہ ’’جو لوگ مارے گئے اور شہید ہوئے وہ میرے دوست تھے۔ میرے غزہ میں بہت سے دوست ہیں۔ میری ٹیم اب غزہ میں ہے، لیکن ہم وہاں تربیت حاصل نہیں کر سکتے۔ فلسطین میں کوئی کھیل نہیں ہو رہا؛ کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔تربیت حاصل کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے؛ ہم صرف سڑکوں پر تربیت حاصل کرتے ہیں۔ کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔ یہ بہت خطرناک ہے، لیکن ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ کوئی دوڑ کا راستہ نہیں ہے، کوئی اسٹیڈیم نہیں ہے، لیکن ہم رک نہیں سکتے۔ میں دل سے دوڑتا ہوں۔ جب میں دوڑتا ہوں تو میں بہت خوش ہوتا ہوں۔ جب میں دوڑتا ہوں تو ایک پیغام بھیجتا ہوں۔ جب میں دوڑتا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ میں اس جھنڈے کے لیے کچھ کر رہا ہوں۔‘‘
واضح رہے کہ غزہ میں، اسرائیلی حملوں میں گزشتہ دو سالوں میں ۸۰۰؍ سے زیادہ کھلاڑی ہلاک اور تقریباً ۳۰۰؍ کھیلوں کی سہولیات تباہ ہو چکی ہیں۔ نوے فیصد کھیلوں کے ڈھانچے ختم ہو چکے ہیں، اور فٹبال کے میدانوں کو ’’قبرستان‘‘ میں بدل دیا گیا ہے۔دویدار نے کہا کہ ’’ساری دنیا جانتی ہے کہ فلسطین میں کیا ہو رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ فلسطین میں کیا ہو رہا ہے۔ ہم یہاں کھیلوں کے لیے ہیں، اور میں فلسطینی عوام کے لیے ایک پیغام بھیجنا چاہتا ہوں۔ میں اپنے خاندان اور اپنے لوگوں کی حمایت کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں فلسطینی بچوں کے لیے بھی ایک پیغام بھیج رہا ہوں، کوشش جاری رکھو، اور ہم اس جھنڈے کے لیے تمغے جیت سکتے ہیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK