Inquilab Logo

مختلف ممالک کے عوام کی جانب سے امریکی مظاہرین سے اظہار یکجہتی

Updated: June 03, 2020, 10:39 AM IST | Agency | Washington

یورپی ممالک سے لے کر خلیجی ممالک تک بیشتر بڑے شہروں میں عوام نے سڑکوں پر اتر کر جارج فلائیڈ کی موت کے خلاف احتجاج کیا۔ لوگوں نے ’ سیاہ فام زندگیاں بھی معنی رکھتی ہیں ‘ کی تختیاں اٹھا رکھی تھیں تو چہروں کے ماسک پر مقتول کا آخری جملہ ’ میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں ‘ لکھوا رکھا تھا، ساتھ ہی ’ میں بھی جارج فلائیڈ‘ کے نعرے لگائے گئے۔ بیشتر ممالک میں امریکی سفارتخانے کی جانب مارچ کیا گیا ۔

Shami Artisian
شامی فنکارعزیز اسمر (دائیں) اور انیس ہمدان (بائیں

 ایک طرف امریکہ میں سیاہ فام شخص کی موت کے سبب ہونے والا ہنگامہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے تو  وہیں دنیا کے مختلف ممالک  کے عوام نے نسل پرستی کے اس واقعے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں  سے اظہار یکجہتی  کے طور پر خود بھی مظاہروں کا انعقاد کیا۔ اس میں یورپی، خلیجی اور افریقی ، ہر خطے کے عوام شامل ہیں۔ 
  برطانیہ ، فرانس اور جرمنی 
  برطانیہ میں اتوار کی شام ہی بڑے پیمانے پر لندن میں واقع ٹریف ایگل  اسکوائر کے پاس جمع ہو کر احتجاج کر رہے تھے لیکن پولیس نے لاک ڈائون کا حوالہ دے کر وہاں سے ہٹا دیا۔  بات نہ ماننے پر ۲۳؍ لوگوں کی گرفتاری ہوئی تھی۔ پیر کو پھر کچھ لوگ مظاہرہ کرنے پہنچے ، اس بار پولیس نے ۶؍ لوگوں کو حراست میں لیا۔ ادھر فرانس کی راجدھانی پیرس میں بھی لوگ سیاہ لباس پہن کر مظاہرہ کرتے نظر آئے۔ انہوں نے ہاتھوں میں تختیاں اٹھا رکھی تھیں جن پر لکھا تھا ’’ سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی معنی رکھتی ہیں۔‘‘  ساتھ انہوں نے کورونا کے سبب چہرے پر جو ماسک پہن رکھا تھا  اس پر لکھا تھا ’’میں سانس نہیںلے پا رہا ہوں‘‘ واضح رہے کہ یہ وہی جملہ  ہے جو پولیس کے ذریعے اپنی گردن پر پیر رکھے جانے پر اس سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ نے ادا کئے تھے۔  
  جرمنی میں بھی لوگ سنیچر اتوار اور پیر تین دنوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔  جرمنی کی راجدھانی برلن میں لوگوں نے امریکی سفارتخانے کی  طرف مارچ کیا۔  اس دوران انہوں نے اپنے ہاتھوں میں تختیاں اٹھا رکھی تھیں جن پر  لکھا تھا ’’ انصاف انتظار نہیں کر سکتا۔‘‘  ادھر ڈنمارک میں کی راجدھانی کوپن ہیگن  میں بھی لوگوں نے امریکی سفارتخانے کی طرف مارچ کیا اور نعرے لگائے ’  نو جسٹس ، نو پیس ‘ ( انصاف نہیں تو امن بھی نہیں۔  اٹلی کے شہر میلان میں امریکی قونصل خانے  کے سامنے گزشتہ  ہفتے ہی مظاہرہ ہو چکاہے جہاں لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے علامتی طور پر اپنا گلا گھونٹ کر جارج فلائیڈ سے  اظہار یکجہتی کیا۔    اس کے علاوہ برازیل میں بھی لوگوں نے سڑکوں پر اتر کر  نعرے لگائے اور انصاف کی مانگ کی۔ 
 شام  کے فنکار کا مظاہرہ
  جنگ زدہ خلیجی ملک شام کے فنکار  عزیز اسمر اور انیس ہمدان نامی  دو فنکاروں نے ادلب میں  اپنے تبا ہ شدہ محلے میں کھڑے ہو کر  ایک مکان کی باقیات پر جارج  فلائیڈ کی پینٹنگ تیار کی  اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ اس میں جارج فلائیڈ کی تصویر کے ساتھ ان کے ادا کئے گئے آخری کلمات میں سانس نہیںلے رہا ہوں بھی نظر  آ رہے ہیں۔  ساتھ  ہی ’نسل پرستی کو نہ‘ لکھا ہوا بھی دکھائی دے رہا ہے۔ ان دونوں کی یہ تصویر ایک بین الاقوامی نیوز ایجنسی نے شائع کی ہے۔
 دیگر ممالک جہاں احتجاج ہوا
  ان کے علاوہ پولینڈ، آئر لینڈ، میکسیکو،   اورآسٹریلیا جیسے ممالک   میں بھی عوام نے  اپنے اپنے طور پر احتجاج کیا۔ بیشتر جگہوں پر لوگوں  نے ’ سیاہ فام زندگیاں بھی معنی رکھتی ہیں‘  کے بینر اٹھا رکھے تھے یا پھر جارج فلائیڈ کا جملہ ’ میں سانس نہیں لے پا رہاہوں کا ماسک پہن رکھا تھا۔ ‘  بعض مقامات پر لوگوں نے ’ میں بھی جارج فلائیڈ‘ ہوں کی  تختیاں بھی اٹھا رکھی تھیں۔ واضح  رہے کہ امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی خاطر سب سے پہلے  نیوزی لینڈ میں احتجاج کیا گیا تھا جہاں آکلینڈ میں لوگوں نے نعرے لگا کر مظاہرہ کیا تھا جبکہ  ویلنگٹن  میں کینڈل مارچ نکالا گیا تھا، اس کے بعد ایک ایک کرکے مختلف ممالک میں یہ سلسلہ شروع ہوا۔ جارج فلائیڈ کی حراستی موت  پیر  ۲۵؍ مئی کو  ہوئی تھی جبکہ  احتجاج اس کے دوسرے روز شروع ہوا۔ ۸؍ دن ہو چکے ہیں مگر معاملہ ختم ہونےکا نام نہیں لے رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK