Inquilab Logo

پرسنل لاء بورڈ لڑکیوں کو فتنہ ٔارتداد سے بچا نے کیلئے فکرمند

Updated: February 06, 2023, 10:04 AM IST | Muhammad Amir Nadvi | Lucknow

ندوۃ العلماء میں   بورڈ کی مجلس عاملہ میں متعدد شرکاء نے توجہ مرکوز کرائی، معاملے کی سنگینی کا اعتراف، آئندہ میٹنگ میں اس ضمن میں لائحہ عمل طے ہونے کی امید، یکساں سول کوڈ کے سلسلے میں احتجاج یا قانونی چارہ جوئی سے گریز کرتے ہوئے گفت وشنید کا راستہ اختیار کرنے پر اتفاق، مسلمانوں کو عائلی مسائل کیلئے دارالقضاء سے رجوع کا مشورہ

Maulana Fazlur Rahim Mujjadi, Maulana Khalid Saifullah Rahmani and Maulana Rabi Hosni Nadvi in the Personal Law Board meeting.
پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس میں مولانا فضل الرحیم مجددی، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور مولانا رابع حسنی ندوی

آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ  نے اتوار کو اپنی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں ’لوجہاد‘ کے مفروضے  اوراس کے انتقام کے نام بھگوا عناصر کے ذریعہ   مسلم لڑکیوں کو گمراہ اور مرتد کرنے کی سازش کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ا س فتنے کے تدارک کی ضرورت سے اتفاق کیا۔ اس کے ساتھ ہی بورڈ  کے اراکین  نے ملک میں یکساں  سول کوڈ کے نفاذ کی کوششوں  پر تشویش کااظہار کیا مگر  عوامی احتجاج یاقانونی چارہ جوئی  کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے گفت وشنید کا راستہ اختیار کرنے پر اتفاق کیا۔ 
 آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ  میں اس کے  رکن یاسین علی عثمانی نے مسلم لڑکیوں کے ارتداد کے مسئلہ کو اٹھایا جس کی تائید دیگر اراکین  نے بھی کی اور کہا کہ ’لو جہاد ‘ کی اصطلاح کے ایجاد اور متعدد ریاستوں میں شروع ہوئے پروپیگنڈے کے بعد اس میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے ۔ یاسین علی عثمانی نےاس سلسلے میں انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’بورڈ میں اس پر بحث نتیجہ کن نہیں رہی  لیکن بورڈ کے  نوٹس میں مسئلہ آنے کے بعد اب پر آئندہ میٹنگ میں لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔‘‘
  جمعیۃ علماءہند کے صدر مولانا ارشدمدنی نے ’انقلاب ‘ سے خصوصی  بات چیت میں کہاکہ ’ لو جہاد ‘ کی اصطلاح مسلمانوں پر تہمت  اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کیلئے گڑھی گئی ہے تاکہ یہ باور کرایا جاسکے کہ مسلمان اس طرح کی تحریک میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ’لو جہاد‘ صرف پروپیگنڈہ ہے ،  اس کے برعکس شدت پسند ہندو اس تحریک میں  شامل ہیں، جو مسلم لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرارہے ہیں۔ اس کے متعدد واقعات شاہد ہیں۔ اس مسئلے سے بچنے کیلئے  انہوں  نے ایسے  تعلیمی اداروں کے قیام پر زور دیا جہاں مسلم بچیاں اسلامی رویات کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں ۔ 
 پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ میں مولانا فخر الدین اشرف،پروفیسر سید علی نقوی،مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، مولانا فضل الرحیم مجددی، مولانا محمود مدنی، مولا نا سجاد نعمانی ، مولانا مصطفی رفاعی جیلانی، بیرسٹراسد الدین اویسی، مولانا خالد رشید فرنگی محلی، مولانا ولی فیصل رحمانی، ڈاکٹرقاسم رسول الیاس، کمال فاروقی، ایڈوکیٹ یوسف مچھالہ ، مولانا سید بلال حسنی ندوی، مولانا عتیق احمد بستوی، شمشاد احمد ایڈوکیٹ، طاہر حکیم ایڈوکیٹ، ڈاکٹر مونسہ بشریٰ اور دیگر شریک تھے۔ 
   بورڈ کی یہ  اہم میٹنگ بورڈ کے صدر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی صدارت میں  دارالعلوم ندوۃ العلماءمیں صبح  ساڑھے۱۰؍بجے شروع  ہوئی جس میں  یکساں سول کوڈ کا معاملہ چھایا رہا ۔بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے مسئلہ کے حل کیلئے ۳؍نکات پیش کئے ایک عدالت کا رخ کرنا ، دوسرے احتجاج  کرنا اور   تیسرے گفت وشنید سے معاملے کو حل کرنا ۔ سب سے پہلے بورڈ کے نائب صدر اور جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی سے اس سلسلہ میں روشنی ڈالنے کیلئے کہا گیا۔ مولانا نے کہا کہ عدالت کا راستہ اس لئے درست نہیں کہ عدالت سے فیصلہ خلاف ہونے کے بعد معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا ہے ۔ احتجاج کی صورت میں یہ  صرف اور صرف مسلمانوں کا مسئلہ بن جائے گا اور اس کے خلاف دیگر مذاہب کے لوگوں کو کھڑا کرکے نفرت انگیزی کی جائے گی ، جو نقصاندہ ہوسکتی ہے۔  انہوں نے کہا کہ  بات چیت سے معاملے کو حل کرنا زیادہ بہتر ہے۔اس پر سبھی نے اتفاق کیا۔ میٹنگ میں نشاندہی کی گئی کہ یکساں سول کوڈ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے ، دیگر اقوام کو بھی اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے جوڑا جائے۔ بورڈ نے ایک مرکزی کمیٹی کے ساتھ ہی سبھی ریاستوں کے لئے کمیٹیاں تشکیل دیں۔کمیٹیوں کو حکومت  کے بات چیت کے ساتھ ہی سیاسی لیڈران بالخصوص اپوزیشن لیڈران کو اعتماد میں لے کر  بات چیت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔اس کے ساتھ ہی انہیں  دلت ، پسماندہ  اور  دیگر اقوام کے لیڈروں اور دانشوروں کو بھی اس معاملے میں اپنے ساتھ جوڑنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
  مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ بات چیت سے مسئلہ حل کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی ۔ بصورت دیگر عدالت سے رجوع  اور پرامن احتجاج کا آئینی حق بطور شہری ہمارے پاس ہے ۔ یعنی آخری مرحلہ میں احتجاج کی راہ اختیار کی جائے گی ۔اس  کے ساتھ ہی عبادتگاہوں کا معاملہ بھی  بورڈ کی مجلس عاملہ میں تفصیل سے زیر گفتگو آیا۔ 
- میٹنگ میں کہا گیا کہ عبادت گاہوں سے متعلق ۱۹۹۱ء کا قانون خود حکومت کا بنایا ہوا  ہے، جسے پارلیمنٹ نے پاس کیاہے، اس کو قائم رکھنا حکومت کا فریضہ ہے اور اسی میں ملک کا مفاد ہے، ورنہ پورے ملک میں مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی شروع ہوجائے گی اور یہ ملک کیلئے بہت ہی بدقسمتی کی بات ہوگی۔میٹنگ میں بورڈ کے ممبران  کیلئے ضابطہ اخلاق  بھی طے کیا گیاہے ، جس کے تحت کوئی بھی ممبر بورڈ میں طے کی ہوئی بات سے اختلاف نہیں کرے گا۔بورڈ کے رکن کی زندگی میں کوئی غیر اخلاقی عمل سرزد نہ ہو۔ میٹنگ میں بورڈ کی جانب سے تیار کردہ نکاح نامے کے مسودہ پر بھی بحث ہوئی ۔ اس کے کئی نکات پر اشکال کی صورت میں اس پر آئندہ میٹنگ میں بات کرنے کی بات طے ہوئی ۔ وہیںبورڈ  نےعام مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ نکاح کیلئے بورڈ کے مرتب کردہ نکاح نامے کا استعمال کریں اورزوجین میں باہمی نزاعات کو حل کرنے کیلئے  دارالقضاء یا محکمہ شرعیہ کو ثالث بنائیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK