Inquilab Logo

’زباں بندی‘ کے بعد پارلیمنٹ میں احتجاج پر بھی پابندی

Updated: July 16, 2022, 10:42 AM IST | new Delhi

راجیہ سبھا سیکریٹریٹ کے سرکیولر میں کہا گیا ہے کہ ’’ پارلیمنٹ ہائوس کے احاطے میں مظاہرے، احتجاج ، دھرنے یا مذہبی تقریب کا انعقاد نہیں کیا جاسکتا ۔‘‘اپوزیشن پارٹیاں برہم ،احتجاج کا اشارہ

Opposition members have been protesting in front of the statue of Mahatma Gandhi in the Parliament premises. (PTI)
اپوزیشن کے اراکین ،پارلیمنٹ کے احاطے میں واقع مہاتما گاندھی کے مجسمے کے سامنے احتجاج کرتے رہے ہیں۔(پی ٹی آئی )

 پارلیمنٹ میں بولے جانے والے متعدد الفاظ پر پابندی عائد کرنے کے بعد اب حکومت نے پارلیمنٹ ہائوس کے احاطے میںدھرنے اور احتجاج پر پابندی عائد کردی ہے ۔راجیہ سبھا سیکریٹریٹ کے ایک نئےسرکیولر میں کہا گیا ہے کہ اب پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں مظاہرے، احتجاج، دھرنایا مذہبی تقریب کا انعقاد نہیں کیا جا سکتا۔   راجیہ سبھا سیکریٹریٹ کےاس سرکیولر پر کانگریس سمیت تقریباً تمام اپوزیشن پارٹیوں نےشدیدتنقید کی ہے۔ واضح رہے کہ ۱۸؍ جولائی سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس سے پہلے راجیہ سبھا کے سیکریٹری جنرل پی سی مودی نے ایک نیا بلیٹن جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں اس معاملے میں اراکین  سے تعاون کی توقع ہے۔
بلیٹن میں کیا گیا ہے؟
 بلیٹن میں کہا گیا ہے کہ اراکین ،پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے کو کسی بھی مظاہرے، دھرنے، ہڑتال، انشن یا کسی مذہبی تقریب کے لئے استعمال نہیں کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ اپوزیشن پارٹیاں عام طور پر پارلیمنٹ احاطے میں مرکزی دروازے کے قریب واقع مہاتما گاندھی کے مجسمے کے سامنے اکثر احتجاج کرتی ہیں۔ کئی ممبران یہاں بیٹھ کر انشن بھی کرتے ہیں۔ یہ اپوزیشن کے علامتی احتجاج کے لئے مختص جگہ قرار دی جاتی ہے۔لیکن اب اس پر بھی پابندی عائد کرنے کی بات ہو رہی ہے جس سے اپوزیشن پارٹیاں خاص طور پر برہم ہیں۔ 
کانگریس پارٹی کی جانب سے شدید تنقید
  اس سرکیولر سے ناراض ہو کر کانگریس پارٹی کے راجیہ سبھا میں چیف وہپ جے رام رمیش نے ٹویٹ کر کے حکومت کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے ۱۴؍ جولائی کو جاری کر دہ سرکیولرکی کاپی شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’وش گرو‘ کا تازہ ترین مشورہ: دھرنا منع ہے۔‘‘  جے رام رمیش نے انگریزی میں دھرنا لکھتے ہوئے ایچ کو قوسین میں بند کر کے اسے’ ڈرنا‘ کی طرح استعمال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپو زیشن لیڈرا ن ماضی میں پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر اور باہر دونوں جگہ مظاہرہ کرتے رہے ہیں اور وہ کیمپس کے اندر مہاتما گاندھی کے مجسمے کے پاس احتجاج اور انشن بھی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ صحت مند جمہوریت کی علامت ہے کہ اپوزیشن کو احتجاج کرنے دیا جائے لیکن مودی سرکار جو کچھ کررہی ہے وہ قطعی غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی ہے۔ اسے روکنے کے لئے ہم ہر ممکن طریقہ اپنائیں گے۔ اس سلسلے میں احتجاج بھی کیا جاسکتا ہے۔
اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں نے کیا کہا ؟ 
     احتجاج کے تعلق سے شرائط کے نفاذ کو اپوزیشن نے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا کہ بی جے پی جس طرح ہندوستان کو برباد کر رہی ہے اسے بیان کرنے کے  لئےان کی طرف سے استعمال ہونے والے ہر تاثر کو اب غیرپارلیمانی قرار دیا گیا ہے۔ جب اس پر احتجاج کا ڈر محسوس ہوا تو بی جے پی نے احتجاج کو ہی روکنے کی کوشش کرڈالی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو گی۔
’’ہم  ہر حال میںاحتجاج کریں گے‘‘
  ترنمول کانگریس کے رکن ڈیرک اوبرائن نے کہا کہ اپوزیشن جمہوری طریقے سے احتجاج جاری رکھے گی۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی چھت پر قومی نشان کی تنصیب کے وقت وزیر اعظم کی طرف سے کی گئی پوجا کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حال ہی میں پارلیمنٹ میں ایک مذہبی تقریب منعقد ہوئی تھی۔برائن نے کہا کہ ہر سال وہ پارلیمنٹ کے بلیٹن میں اس طرح کے نوٹس جاری کرتے ہیں۔ دھرنا، مظاہرے، ہڑتالیں اور بھوک ہڑتال احتجاج  کےجائز پارلیمانی طریقے ہیں۔ ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔ انہوں نے پوچھا  کہ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں، حال ہی میں کسی نے پارلیمنٹ کے احاطے میں کوئی مذہبی رسوم ادا کی ہے یا نہیں۔
’’اگر ایسا ہے تو مہاتما گاندھی کا مجسمہ ہی ہٹادیا جائے ‘‘
 ترنمول کانگریس کی لوک سبھا رکن مہوا موئترا نے  راجیہ سبھا سیکریٹریٹ کی طرف سے پارلیمنٹ میں دھرنا اورمظاہرے پر پابندی لگانے کے نوٹس پر شدید الفاظ میں اعتراض کیا اور کہا کہ اگر ایسا ہے تو حکومت کو چاہئے کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کی مجسمہ کو پارلیمنٹ ہاؤس کمپلیکس سے ہٹایا دیا جائے اور اظہار رائے کی آزادی کا حق  ہی ختم کردیا جائے، نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔مہوا موئترا کے مطابق اگلے سیشن میں ہم اس سرکیولر کے خلاف سخت احتجاج کریں گے ۔ 
 تمام اپوزیشن  پارٹیاں مل کرطے کریں گی : شرد پوار
 این سی پی چیف شرد پوار نے پابندی کے تعلق سے کہا کہ میرے پاس اب تک ایسی کوئی اطلاع نہیں آئی ہے کہ پابندی عائد کی گئی ہے بلکہ اسپیکر کا پیغام آیا ہے کہ کوئی پابندی نہیں ہے لیکن ہم اس معاملے پر سنیچر کو دہلی میں ہونے والی اپوزیشن کی میٹنگ میں غور کریں گے اور پھر کوئی فیصلہ کریں گے ۔ جہاں تک احتجاج پر پابندی کی بات ہے تو یہ جمہوریت کے لئے نیک شگون نہیں ہے کہ اپوزیشن کو احتجاج سے روک دیا جائے۔

Parliament Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK