Inquilab Logo

چچا کی ثالثی کے بعد شاہ عبداللہ اور شہزادہ حمزہ کے درمیان صلح

Updated: April 07, 2021, 1:51 PM IST | Agency | Washington

 اردن کے شاہ عبداللہ دوم اور ان کے سوتیلے بھائی شہزادہ حمزہ کے درمیان کشیدگی سے پیداہونے والا سیاسی بحران کو حل کرلیا گیا ہے۔شاہی خاندان کے عوامی سطح پر نمایاں جھگڑے کے دوران شاہ عبداللہ نے شہزادہ حمزہ کو بیرونی مدد سے اردن کو غیر مستحکم کرنے کے الزام میں نظر بند کردیا تھا جبکہ شہزادہ حمزہ نے ان الزامات کومستر د کرتے ہوئے کہا تھا

Picture.Picture:INN
شاہ عبداللہ کے چچا حسن کی شہزادہ حمزہ سے ملاقات کے بعد اردن کا سیاسی بحران ٹل گیا ہے ۔تصویر :آئی این این

 اردن کے شاہ عبداللہ دوم اور ان کے سوتیلے بھائی شہزادہ حمزہ کے درمیان کشیدگی سے پیداہونے والا سیاسی بحران کو حل کرلیا گیا ہے۔شاہی خاندان کے عوامی سطح پر نمایاں جھگڑے کے دوران شاہ عبداللہ نے شہزادہ حمزہ کو بیرونی مدد سے اردن کو غیر مستحکم کرنے کے الزام میں نظر بند کردیا تھا جبکہ شہزادہ حمزہ نے ان الزامات کومستر د کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ گھر پر رہنے اوربیانات دینے سے گریز کرنے کا حکم نہیں مانیں گے۔ اس تنازع کے خاتمے کا اعلان شاہ عبداللہ کے چچا حسن کی شہزادہ حمزہ سے ملاقات کے بعد کیا گیا ۔ انہوں نے فریقین میں ثالث کا کردار ادا کیا۔یہ ملاقات رائل ہاشمی کورٹ میں ہوئی جہاں شہزادہ حمزہ کے بھائی ہاشم اور ان کے تین چچازاد بھی شامل تھے۔بعد میںشہزادہ حمزہ  نے بیان جاری کیاکہ وہ اردن کے شاہ اور ملک کے آئین کے وفادار رہیں گے ۔ اس بیان پر شہزادے کے دستخط بھی موجود ہیں۔اس سے قبل شاہی کشیدگی کے دوران شہزادہ حمزہ نے پیر کو اپنے ایک ویڈیومیں کہا تھا کہ وہ گھر پر رہنے اور بیانات سے باز رہنے جیسی سرکاری دھمکیوں کی پرواہ نہیں کریں گے۔شہز ادہ حمزہ پر الزام ہے کہ وہ اپنے سوتیلے بھائی شاہ عبداللہ کی حکومت میں عدم استحکام پیدا کرنے کی سازش کر رہے تھے۔   اردن کے حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ شہزادہ حمزہ نے غیر ملکی مدد سے ایک سازش کی، جسے ناکام بنا دیا گیا ۔ تاہم اس سازش کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔حمزہ نے ایسی کسی بھی سازش میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُنہیں کرپشن اور کمزور حکمرانی کے خلاف بولنے پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ ریکارڈیڈ بیان میں حمزہ کا کہنا تھا کہ فوج کےسربراہ ان کے پاس آئے اور اُنہیں  دھمکیاں دیں۔ شہزادےکا کہنا تھا کہ انہوں نے چیف آف اسٹاف کی باتیں بھی ریکارڈ کر لی ہیں اور اگر انہیں کچھ ہوا تو وہ اس ریکارڈنگ کو بیرونِ ملک بسنے والے اپنے عزیز اور رشتے داروں کو بھیج دیں گے۔شہزادہ حمزہ نے ایسے کسی حکم کی تعمیل کرنے سے انکار کر دیا تھا جس میں انہیں گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا گیا ہو یا انہیں ٹویٹ کرنے یا اپنے اہلِ خانہ سے ملنے سے روکا جائے۔
شہزادہ حمزہ کا کہنا تھا جب فوج کا سربراہ انہیں دھمکی دے گا تو پھر یہ سب ناقابلِ قبول ہے۔ اردن کی فوجی سربراہ یوسف ہونیتی نے پیر کو کہا تھا کہ ملک کی مسلح افواج اور سیکوریٹی ایجنسیوں کے پاس یہ طاقت اور تجربہ ہے کہ وہ اندرونِ ملک یا خطے میں پیدا ہونے والی کسی پیش رفت سے نمٹ سکیں۔ جنرل یوسف نے یہ بیان ملک کے مشرقی علاقے میں `شیلڈ آف دی نیشن نامی فوجی مشق کے موقع پر دیا تھا جس میں بری فوج کی متعدد بریگیڈ، اسپیشل فورس، باڈی گاررڈ اور رائل ایئر فورس شامل تھیں۔ مذکورہ مشق کا بظاہر  دونوں بھائیوں کی کشیدگی  سے تعلق نہیں تھا کیونکہ ایسی مشقوں کا منصوبہ بہت پہلے بنا لیا جاتا ہے۔جنرل یوسف کا کہنا تھا کہ فوج ان عناصر کا سامنا کرے گی جو ملک کی سیکوریٹی کو خطرے میں ڈالے،  یاشہریوں کو خوفزدہ کرے۔ملک کے وزیر خارجہ ایمان صفادی کا اتوار کو کہنا تھا کہ شہزادہ حمزہ نے  بتایا کہ شہزادہ حمزہ کے ۱۴؍سے ۱۶؍ ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن میں شاہی خاندان کے رکن، شریف حسن بن زید، کابینہ کے سابق رکن اور ایک وقت میں شاہی عدالت کے سربراہ باسیم اودھ اللہ شامل ہیں۔امریکہ اور دیگر عرب ملکوں کی فوری طور پر شاہ عبداللہ کے ساتھ کھڑے ہونے سے اردن کی سفارتی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔واضح رہے کہ عبداللہ اور حمزہ دونوں شاہ حسن کے بیٹے ہیں۔ ۱۹۹۹ءمیں شاہ حسن کی موت کے بعد تخت سنبھالتے ہوئے شاہ عبداللہ نے شہزادہ حمزہ کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا۔ تاہم پانچ برس بعد ان سے یہ عہدہ واپس لے لیا گیا تھا۔بظاہر دونوں میں اچھے تعلقات رہے ہیں، تاہم حمزہ نے بعض اوقات حکومت کی پالیسیوںپر تنقید کی ۔ حال ہی میں انہوں نے ملک کے طاقتور قبائلی سرداروں کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھائے ۔ اس اقدام کو شاہ عبداللہ کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھاگیا۔

jordan Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK