دلخراش سانحہ میں ۷۴؍افراد ہلاک ہوگئے تھے،طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی لوگوں کے دلوں میں تازہ ہے،مہلوکین کو یاد کرکے اہل خانہ آج بھی غمگین ہوجاتے ہیں۔
اپنی بیٹی گنوانےوالے چندرپت وہ جگہ دکھاتے ہوئے جہاں پر بلڈنگ کا پلّرتھا۔ تصویر: آئی این این
جب بھی کسی عمارت کے منہدم ہونے کا واقعہ ہوتا ہے، عوام کے ذہن میں ممبرا کے لکی کمپاؤنڈ حادثہ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ ۴؍ اپریل ۲۰۱۳ء کو شیل مہاپے روڈ پر واقع لکی کمپاؤنڈ میں ۷؍ منزلہ نیم رہائشی زیر تعمیر عمارت تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی تھی اور اس میں مقیم ۷۴؍ افراد ہلاک اور ۱۰۰؍ سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ مہلوکین میں ۱۸؍بچے، ۳۳؍ مرد اور ۲۳؍ خواتین شامل تھیں۔ اس حادثہ کو ۱۲؍سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن پیر کو نمائندۂ انقلاب نے جب اس کمپاؤنڈ کا دورہ کیا تو دیکھا کہ اب اس مقام پر زمین کے مالک نے گالے بنا دیئے ہیں جن میں کارخانے جاری ہیں۔
لکی کمپاؤنڈ کا دورہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کے بازو میں چالی آج بھی ویسے ہی آباد ہے جیسے حادثہ کے وقت تھی اور اس کے پیچھے جنگل بھی ویسا ہی ہے۔ آس پاس کےگودام میں کام کاج معمول کی طرح جاری ہے جن میں کئی مزدور کام کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔
لکی کمپاؤنڈ حادثہ کی خبر کا عکس۔
لکی کمپاؤنڈ میںجو عمارت حادثہ کا شکار ہوئی تھی اسے بعد میں آدرش بلڈنگ ’بی‘ ونگ کہا گیا تھا۔ اس کمپاؤنڈ کے قریب واقع وتاس نگر چال کے پہلے مکان میں رہنے والے چندر پت سے رابطہ کرنے پر انہوںنے اس حولناک منظر کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’’میرے ۲؍بچے ٹیوشن پڑھنے کیلئے اسی عمارت میں گئے تھے جو ڈھہ گئی اور یہ دونوں بلڈنگ کے ملبہ میں دب گئے تھے۔ میرا بیٹا ابھینندن کا پیر فریکچر ہو گیا تھا جبکہ میری ۷؍سالہ بیٹی آرتی ملبہ سے زندہ نہیں نکل سکی ۔ اگر آج وہ حیات ہوتی تو اس کی شادی ہو چکی ہوتی۔ ابھینندن ابھی ٹھیک ہے اور کلیان پھاٹا میں موٹر پارٹس کی دکان چلا رہا ہے ۔آ ج بھی بیٹی کی بہت یاد آتی ہے، جو حادثہ ہوا ہے اس نے اچھے اچھوں کو ہلا دیا ہے تو مَیں کیا ہوں؟ اتنا بڑا حادثہ مَیں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا ۔‘‘
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد چندر پت نے کہا کہ ’’ قسمت میں جو لکھا ہے وہ تو ہونا ہی ہے اس میں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ہمارے گھر سے ۴؍ تا ۵؍ قدم کے فاصلے پر اُس بلڈنگ کا ایک پلر تھا جو بلڈنگ گری نہیں تھی لیکن غیر قانونی ہونے کے سبب حادثے کے بعد میونسپل افسران نے اسے بھی منہدم کر دیا۔ ‘‘
انہوں نے مزید بتایاکہ ’’جو بلڈنگ گری تھی اس کے ۷؍ تا ۸؍ منزلہ ۴۷؍ دنوں میں تعمیر کئے گئے تھے ، سلیب کو اچھے سے سوکھنے ہی نہیں دیا گیا تو وہ کہاں سے مضبوط ہوتے یہی بلڈنگ گرنے کی ایک اہم وجہ تھی۔ ہمارے گاؤں میں ۱۷؍ دنوں پر ایک سلیب ڈالا جاتا ہے۔ بلڈنگ گرنے کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جب بنیاد پڑ رہی تھی اس دوران میونسپل افسران نےاس کےپلر کو کاٹ دیا تھا لیکن بلڈر نےسے جوڑ کر عمارت کھڑی کر دی تھی۔‘‘
چندر پت مزیدبتاتے ہیں ’’اس حادثے کے بعد الیکٹرانک میڈیا پر ہمارا جو انٹر ویو آیا تھا وہ آج بھی موجود ہے اور کبھی کبھی ہم سب اسے دیکھ کر اپنی بیٹی کو یاد کر لیتے ہیں۔ ‘‘
ان سے آنجہانی بیٹی کی تصویر دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ ’’اس کی کوئی تصویر میں نے باقی نہیں رکھی البتہ موبائل میں تھی لیکن اب وہ بھی کئی بار فارمیٹ ہو چکا ہے۔ بلڈنگ گرنے کے بعد اس کے بازو والی بلڈنگ کو منہدم کرنے کیلئے میونسپل کارپوریشن کو مشینیں لانی تھی اسی لئے ہمارا مکان میونسپل افسران نے منہدم کر دیا تھا، بعد میں ہمیں اسے دوبارہ بنانا پڑالیکن ہم آج بھی اسی جگہ پر رہتے ہیں۔‘‘
حکومت کی جانب سے مہلوکین کو ۲؍ لاکھ روپے معاوضہ دینے کا جو اعلان کیا گیا تھا کیا وہ آپ کو ملا ؟ اس سوال پرچندر پت نے بتایاکہ ’’معاوضہ کیلئے ۴؍ تا ۵؍ سال تک پریشان رہالیکن یہ نہیں مل سکا۔ یوپی میں مو ٔ ضلع جاکر سرکاری افسران سے ملاقات کی ، وہ اپنی رپورٹ بھیجتے تھے لیکن یہاں کے افسران کو وہ تصدیق نامہ نہیں مل رہا تھا۔ مَیں نے ۴؍ تا ۵؍ مرتبہ وہاں جاکر افسران سے ملاقات کی۔ ہزار ۲؍ ہزار روپے لینے کے بعد افسر نے بات سنی اور اس کے بعد ڈاک کے ذریعے رپورٹ بھیجی بھی لیکن یہاں منترالیہ کے متعلقہ محکمہ میں یہ نہیں پہنچی۔ ان کی شرط تھی کہ ڈاک کے ذریعے ہی رپورٹ منترالیہ کے متعلقہ محکمہ میں پہنچے گی تو ہی وہ اسے قبول کریں گے ۔ مَیں کئی مرتبہ منترالیہ جاکر چیک بھی کیا لیکن افسران یہی جواب دیتے رہے کہ انہیں رپورٹ موصول نہیں ہوئی ۔ آخر کار تھک ہار کر مَیں نے معاوضہ ملنے کی امید ہی چھوڑ دی ۔ ‘‘البتہ نمائندۂ انقلاب نے دیگر متاثرین سے معلومات لی تو پتہ چلا کہ جن کے دستاویزا ت کی تصدیق ہوئی تھی انہیں معاوضہ کی رقم مل گئی تھی۔
پڑوس میں رہنے والی ایک خاتون خانہ نے بتایا کہ ’’ جن کے عزیز وںکا اس حادثہ میں انتقال ہوا تھا وہ کئی برس تک ۴؍ اپریل کو اس جگہ آتے تھے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرتے تھے، البتہ اب کوئی نہیں آتا۔‘‘ انہوںنے یہ بھی کہا کہ ’’حادثے کے بعد تو مَیں کچھ مہینوں کیلئے گاؤں چلی گئی تھی کیونکہ بار بار وہی ہولناک منظر میرے سامنے آجاتا تھا اور لوگوں کی آواز سنائی دیتی تھی لیکن اب وہ پریشانی ختم ہو گئی۔‘‘
واضح رہے کہ ۴؍اپریل ۲۰۱۳ء کی شام ۵؍ بجے جب لکی کمپاؤنڈ کا حادثہ ہوا تھا اس روز اس کےملبے سے ۱۰؍ افراد کی لاشیں برآمد کی گئی تھیں اور ملبہ میں کئی افراد کے پھنسے ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا ۔ کئی دنوں تک ملبہ ہٹانے کا کام جاری رہا اور جیسے جیسے ملبہ ہٹایا جاتا رہا ویسے ویسے لاشیں بھی ملتی گئیں اور مہلوکین کی تعداد بڑھتے بڑھتے ۷۴؍ تک پہنچ گئی تھی جس نے پورے ملک کو دہلا دیا تھا۔