Inquilab Logo

توہین ِ رسالت اور تریپورہ جیسے اُمور کیخلاف قرارداد منظور

Updated: November 22, 2021, 9:45 AM IST | Abdul Haleem | Kanpur

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے حکومت سے ضروری اقدامات اور خاطیوں کیلئے سزا کا مطالبہ کیا ، شرعی قوانین میں مداخلت اور مذہبی اصطلاحات کی من مانی تشریح پر بھی انتباہ

Maulana Khalid Saifullah Rahmani addressing the media after the meeting..Picture:INN
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اجلاس کے بعد میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے۔ ۔ تصویر: آئی این این

ملک میں نبی کریم ؐ کی شان میں گستاخی کی جسارت  کے  بڑھتے ہوئےمعاملات، تریپورہ تشدد، مسلمانوں پر مظالم، وقف املاک پر غیر قانونی قبضوں ، یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوششوں نیز گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ کے تعلق سے شرانگیزیوں پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اتوار کو کانپور میں اپنے ۲۷؍ ویں اجلاس کے دوسرے دن ۱۱؍ اہم تجاویز منظور کیں۔ اس سلسلے میں ضروری اقدامات کی مانگ کے ساتھ ہی بورڈ نےحکومت سے  اقلیتوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت نیز ماب لنچنگ جیسی  وحشیانہ حرکتوں پر روک لگانے کیلئے موثر قدم اٹھانے اور مجرمین کیخلاف سخت کارروائی کو یقینی بنانے کی مانگ کی ہے۔ بورڈ  نے اپیل کی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ برادران وطن کو بھی چاہئے کہ وہ اسلام کے معاشرتی قوانین کا مطالعہ کریں  تاکہ سماجی ہم آہنگی  مضبوط ہو  اور مسلمانوں کیخلاف پھیلائی جارہی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے۔  یہ تجاویز دار التعلیم و الصنعت جاج مئو کانپور میں منعقدہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ۲۷؍ویں اجلاس میں اتفاق رائے سے منظور کی گئیں۔  اجلاس کے اختتام پر منعقدہ پریس کانفرنس میں دو روزہ اجلاس کے کارروائی کی تفصیلات فراہم کرتے  ہوئے عہدیداران نے بتایا کہ۱۱؍اہم نکات پر تجاویزپیش کی گئی ہیں۔ مذہبی رہنماؤں کی شان میں گستاخی کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ’’ ہندوستان کثیر المذاہب ملک ہے۔ جہاں سبھی مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے مذہبی پیشوائوں کی عزت کرتے اور آپس میں پیار ومحبت کیساتھ رہتے ہیں۔ مسلمان ہمیشہ اسلامی تعلیمات کے مطابق دیگر مذاہب کی مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی سے گریز کرتے ہیں لیکن افسوس پچھلے کچھ برسوں سے پیغمبر اسلام ؐ کی شان میں گستاخی کے واقعات میں اضافے کے ساتھ کھلے عام مسلمانوں کی دلآزاری کی جارہی ہے۔اس سے عالمی سطح پر بھی ہندوستان کی شبیہ داغدار ہورہی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ مذہبی رہنمائوں کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دینے کیساتھ موثر قانون بنا کراس پر عمل کو یقینی بنائے۔‘‘ شریعت میں مداخلت  کے خلاف تجویز میں کہا گیا  ہے کہ ’’مذہبی احکامات کا تعلق عقیدہ و یقین سے ہے اور ان کی تشریح کاحق صرف مذہبی عالم کو حاصل ہے۔ حکومت و عدالت کو مذہبی کتابوں یااصطلاحات کی من مانی تشریح کرکے شریعت میں مداخلت سے گریز کرنا چاہئےکیوں کہ یہ آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی میں بھی مداخلت کے مترادف ہے۔  وقف املاک سے متعلق تجویز میں کہا گیا ہے کہ وقف کی گئی چیز انسان کی ملکیت سے نکل کر اللہ کی ملکیت میں آجاتی ہے۔ واقف کی منشاء کیخلاف اس کی خرید وفروخت کا اختیار کسی فرد یا حکومت کو نہیں ہے ۔ حکومت ،متولی یا عدالتوں کو وقف املاک کے خریدوفروخت کا اختیار دینا شریعت اور وقف قانون کیخلاف ہے۔ بورڈ نے واضح کیا ہے کہ شرعی قوانین میں مداخلت کسی بھی شکل میں مسلمان قبول نہیں کر سکتا ہے۔  یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوشش سے متعلق تجویز میں کہا گیا کہ ہندوستان کثیر مذہبی ملک اور یہاں کادستور جمہوری ہے جس میں ہر شہری کو اپنے مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور دعوت دینے کا حق وآزادی دی گئی ہے۔ کثیر مذہبی ملک میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب و برادری کے لوگوں کو بھی آئین میں دیئے گئے حقوق کیخلاف ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ اس لئے حکومت براہ راست یا بالواسطہ کلی یا جزوی یکساں سول کوڈ مسلط کرنے کی کوشش نہ کرے۔   

tripura Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK