Inquilab Logo Happiest Places to Work

روہنگیا نسل کشیکی ۸؍ویں برسی، لاکھوں پناہ گزینوں کا محفوظ وطن واپسی کا مطالبہ

Updated: August 27, 2025, 1:09 PM IST | Agency | Cox`s Bazar

کٹوپالونگ کیمپ میں منعقدہ پروگرام میں مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا: ’’اب مزید پناہ گزینی نہیں‘‘ اور ’’واپسی ہی حتمی حل ‘‘ بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ محمد یونس کی سربراہی میں خصوصی کانفرنس کا انعقاد۔

Muhammad Yunus visited the Katupalong camp. Left: Participants display posters at the eighth anniversary event in the open field of the refugee camp. Photo: INN
محمد یونس نے کٹوپالونگ کیمپ کا دورہ کیا۔ بائیں: پناہ گزیں کیمپ کے کھلے میدان میں آٹھویں برسی پر منعقدہ پروگرام کے شرکاء پوسٹردکھاتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این

لاکھوں روہنگیا پناہ گزین جو بنگلہ دیش کے مختلف کیمپوں میں مقیم ہیں، نے اپنی اجتماعی ہجرت کی آٹھویں برسی  منائی ۔ پیر کو کاکس بازار اور دیگر کیمپوں  میں منعقدہ تقاریب میں ان پریشاں  حال  پناہ گزینوں نے  اپنے وطن (راکھین  ریاست) میں محفوظ واپسی کا مطالبہ کیا ۔ اے پی کی تفصیلی رپورٹ کے مطابق ضلع کاکس بازار کے کُٹوپالونگ کیمپ کے کھلے میدان میں یہ جمع ہوئے۔ یہ وہی جگہ ہے جسے دنیا کا سب سے بڑا پناہ گزین کیمپ بھی کہا جاتا ہے۔ہزاروں  مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا: ’’اب مزید پناہ گزینی نہیں‘‘ اور ’’واپسی ہی حتمی حل ہے‘‘۔ لاکھوں پناہ گزین اس دن کو ’’روہنگیا نسل کشی یادگاری دن‘‘ کے طور پر منا رہے تھے۔ ۱۹؍سالہ پناہ گزیں  نور عزیز  نے کہا کہ’’ہم اپنے ملک واپس جانا چاہتے ہیں اور وہاں ہمیں ویسے ہی مساوی حقوق چاہئے جیسے میانمار میں دیگر نسلی گروہوں کو حاصل ہیں،‘‘ نورنے ’اے پی‘ سے بات چیت میں یہ بھی کہا کہ ’’جو حقوق میانمار میں دیگر افراد کو بطور شہری حاصل  ہیں، ہم بھی وہی حقوق چاہتے ہیں۔‘‘
خصوصی کانفرنس کا انعقاد
 بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ  محمد یونس نے کاکس بازار میں روہنگیا پر منعقدہ ۳؍ روزہ کانفرنس کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ان کی محفوظ واپسی کیلئے اقدامات کرے۔ بین الاقوامی شخصیات، اقوام متحدہ کے نمائندے، سفارتکار اور بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اس کانفرنس میں پناہ گزینوں کیلئے خوراک اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے امکانات پر بھی غور کیا۔یونس نے کہا: ’’ان کے وطن واپسی کے حق کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ اسلئے ہم سب سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ میانمار، ارکان آرمی اور تمام فریقین کے ساتھ اپنے تعلقات اس طرح ترتیب دیں کہ اس دیرینہ بحران کے جلد از جلد حل میں مدد ملے۔‘‘
 خیال رہے کہ اگست ۲۰۱۷ء میں میانمار نے راکھین ریاست میں گارڈ پوسٹس پر عسکریت پسندوں کے حملوں کے بعد وحشیانہ فوجی کارروائی شروع کی تھی۔ جس پر  عالمی برادری بشمول اقوام متحدہ نے بھی  میانمار پر روہنگیاؤں کی نسل کشی کا الزام عائد کیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق روہنگیا دنیا کی ’’سب سے زیادہ ستائی جانے والی اقلیت‘‘ ہیں۔جارح کارروائیوں کے سبب لاکھوں روہنگیا مسلمان میانمار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ وہ بمباری، اندھا دھند قتل عام اور دیگر پرتشدد کارروائیوں سے بچنے کیلئے  پیدل اور کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش پہنچے۔ بعد ازاں یہ علاقہ’ارکان آرمی‘ نامی عسکریت پسند گروہ کے قبضے میں آ گیا جو میانمار کی فوج سے برسرِپیکار ہے۔
 یہ بھی خیال رہے کہ روہنگیامسلمانوں کیساتھ پیش آنے والے ہولناک تشدد اور مظالم کے سبب اس وقت کی بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے سرحد کھولنے کا حکم دیا اور ۷؍ لاکھ سے زائد روہنگیاؤں کو پناہ  دی گئی۔ یہ تعداد ان ۳؍ لاکھ پناہ گزینوں کے علاوہ تھی جو اس سے پہلے بھی مختلف ادوار میں میانمار کی فوجی کارروائیوں سے بچ کر بنگلہ دیش میں پناہ گزین کے طور پر رہ رہے تھے۔
 مختلف  رپورٹس کے مطابق ۲۰۱۷ء کے بعد سے بنگلہ دیش کم از کم دو مرتبہ پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کی کوشش کر چکا ہے اور اس نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ میانمار پر دباؤ ڈالے تاکہ وہاں ایسا پرامن ماحول بنایا جا سکے جو پناہ گزینوں کی واپسی میں مددگار ہو۔ شیخ حسینہ اور محمد یونس کے دوراقتدار میں چین سے بھی اس سلسلے میں تعاون طلب کیا ہے۔ تاہم میانمار کے اندر خاص طور پر راکھین ریاست کی صورتحال اب بھی غیر مستحکم ہے، جس سے سلامتی پر خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ 
ستمبر میں خصوصی کانفرنس 
 اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نےاس معاملے پر کہا: ’’سیکریٹری جنرل انتونیو غطریس کو امید ہے کہ۳۰؍ ستمبر کو نیویارک میں روہنگیا اور دیگر اقلیتوں پر منعقد ہونے والی اعلیٰ سطحی کانفرنس، جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فیصلے کے تحت بلایا گیا ہے، روہنگیا پناہ گزینوں کے مسئلے کے پائیدار حل تلاش کرنے کی فوری ضرورت کی طرف بین الاقوامی توجہ کو دوبارہ مبذول کرائے گی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ میانمار کے حوالے سے سیکریٹری جنرل کے خصوصی ایلچی تمام فریقین سے رابطے میں ہیں تاکہ ملک میں جاری وحشیانہ خانہ جنگی کو ختم کیا جا سکے اور ایک قابلِ عمل، میانمار کی قیادت میں چلنے والے سیاسی عمل کی حمایت کی جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ روہنگیا کی میانمار واپسی رضاکارانہ، محفوظ، باعزت اور پائیدار بنیادوں پر ممکن ہو۔

مظالم کا شکار روہنگیا : کب کیا ہوا؟
الجزیرہ کی رپورٹ کے  مطابق روہنگیا مسلمانوں پر میانمار کے فوجی جبر و ستم کی تاریخ۱۹۴۰ءکی دہائی کے اواخر سے شروع ہوتی ہے۔
n ۱۹۸۲ء میں ایک قانون کے ذریعے انہیں شہریت سے محروم کر دیا گیا، جس سے وہ بنیادی حقوق اور تحفظ سے بھی محروم ہوگئے 
 اکتوبر۲۰۱۶ء:  میانمار کی فوج نے سرحدی پولیس پر حملے پرروہنگیا کیخلاف کریک ڈاؤن کیا، جسکے سبب۸۷؍ہزار روہنگیا بنگلہ دیش بھاگ آئے۔
 ۲۵؍اگست ۲۰۱۷ء: اراکان روہنگیا سالویشن آرمی نے فوجی چوکیوں پر حملہ کیا، جس میں ایک درجن سے زیادہ فوجی مارے گئے۔ جواباً فوج نے درجنوں دیہات جلا دیے اور تقریباً۴۰۰؍ افراد کو ہلاک کر دیا۔ لاکھوں روہنگیا مسلمان قتل و غارتگری سے بچنے کیلئے  پیدل اور کشتیوں کے ذریعے بھاگے۔ 
 اقوام متحدہ کے مطابق پہلے ۲؍ ہفتوں میں ہی لاکھوں روہنگیا مسلمان میانمار میں ہونے والے فوجی کریک ڈاؤن سے بچنےکیلئے  بنگلہ دیش اور دیگر پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔اس درمیان سیکڑوں روہنگیا ؤں نے سمندری حادثات میں بھی جانیں گنوائیں۔
 میانمار کے اندر بڑھتی ہوئی مسلح جھڑپوں کے باعث اب بھی ہزاروں لوگ کاکس بازار کے پناہ گزین کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں، جہاں اس وقت تقریباً۱۰؍ لاکھ پناہ گزین مقیم ہیں۔
 نومبر ۲۰۱۹ء: بین الاقوامی فوجداری عدالت(آئی سی سی) نے میانمار کی فوج کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کی منظوری دی۔
 دسمبر۲۰۱۹ء: افریقی ملک گامبیا نے میانمار کیخلا ف’آئی سی جے‘ میں نسل کشی کا مقدمہ دائر کیا۔ آنگ سان سو چی نے میانمار کا دفاع کیا اور نسل کشی کے الزامات کو رد کیا اور کہا کہ ملک ’’اندرونی مسلح تنازع‘‘ کا سامنا کر رہا ہے، تاہم  اعتراف کیا کہ فوج نے ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کی ہوگی۔
  ۲۳؍جنوری ۲۰۲۰ء: عالمی عدالت انصاف نے میانمار کو حکم دیا کہ وہ نسل کشی کو روکنے کے فوری اقدامات کرے ۔
 یکم فروری۲۰۲۱ء: میانمار کی فوج نے حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ آنگ سان سو چی کو نظر بند کر کے۱۷؍ سال قید کی سزا سنائی گئی۔
 ؤ ۲۱؍ مارچ۲۰۲۲ء: امریکہ نے۲۰۱۷ء کے فوجی مظالم کو باضابطہ طور پر ’’نسل کشی‘‘ قرار دیا 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK