منصوبہ غزہ میںعالمی استحکام فورس کی تعیناتی کی اجازت دیتا ہے،روس نےپلان کوفلسطینی ریاست کے قیام کیلئے ناکافی قراردیا، سلامتی کونسل سے دوریاستی حل پر غور کی اپیل
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کیاگیا امریکہ کا غزہ امن منصوبہ ۲۰؍ نکات پر مبنی ہے۔ تصویر:آئی این این
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں پیر کو اس امریکی مسودہ قرارداد پر ووٹنگ ہوئی جس میں ڈونالڈ ٹرمپ کےامن منصوبے کے تحت غزہ میں ایک بین الاقوامی فورس کی تعیناتی سے متعلق فیصلہ ہونا تھا۔ ووٹنگ پیر کی شام شروع ہوئی ۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق واشنگٹن نے خبردار کیا ہے کہ منصوبے پر عمل نہ ہونے کی صورت میں لڑائی دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔ یہ مسودہ جس پر اعلیٰ سطحی مذاکرات کے نتیجے میں کئی بار نظر ثانی کی گئی ہے، جنگ بندی کے اس منصوبے کی ’توثیق‘ کرتا ہےجو ۱۰؍ ا کتوبر کو اسرائیل اورحماس کے درمیان انجام پا یا تھا ۔واضح رہےکہ امریکہ کا غزہ امن منصوبہ ۲۰؍ نکات پر مبنی ہے۔ اس منصوبہ پرروس نے اعتراض بھی ظاہرکیا ہے۔
۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو شروع ہونے والی حماس اسرائیل جنگ کے نتیجے میں دو سال کی لڑائی کے بعد غزہ کی پٹی بڑی حد تک ملبے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ امریکی مسودہ کا تازہ ترین ورژن ایک بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کے قیام کی اجازت دیتا ہے جو اسرائیل اور مصر اور نئی تربیت یافتہ فلسطینی پولیس کے ساتھ مل کر سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانے اور غزہ پٹی کو غیر فوجی بنانے میں مدد فراہم کرے گی۔آئی ایس ایف غیر ریاستی مسلح گروہوں سے ہتھیاروں کے مستقل خاتمے، شہریوں کی حفاظت اور انسانی امداد کی راہداریوں کو محفوظ بنانے پر بھی کام کرے گا۔اس کے علاوہ یہ غزہ کے لیے ایک عبوری گورننگ باڈی ’بورڈ آف پیس‘ کی تشکیل کی اجازت دے گا، جس کی صدارت ٹرمپ نظریاتی طور پر کریں گے اور اس کی میعاد۲۰۲۷ء کے آخر تک جاری رہے گا۔
قرارداد کے ابتدائی مسودوں کے برعکس، تازہ ترین ورژن میں مستقبل کی ممکنہ فلسطینی ریاست کا ذکر ہے۔مسودے میں کہا گیا ہے کہ ایک بار جب فلسطینی اتھاریٹی نے اصلاحات کی درخواست کی ہے اور غزہ کی تعمیر نو کا کام جاری ہے،حالات آخرکار فلسطینیوں کے حق خود ارادیت اور ریاستی حیثیت کیلئے قابل اعتبار راستے تلاش کرنے کیلئے ہو سکتے ہیں۔ حالانکہ اس تصور کو اسرائیل نے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔اتوار کو کابینہ کے اجلاس میں بنیا مین نیتن یاہو نے کہا کہ کسی بھی سرزمین پر فلسطینی ریاست کیلئے ہماری مخالفت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘
روس کے اعتراضات
ویٹو پاور رکھنے والے روس نے ایک مسابقتی مسودہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی دستاویز فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کیلئے کافی نہیں ہے۔ماسکو کے مسودہ میں سلامتی کونسل سےاپیل کی گئی ہے کہ وہ ۲؍ ریاستی حل کے نظریہ کیلئے غیر متزلزل عزم کا اظہار کرے ۔یہ فی الحال کسی بورڈ آف پیس یا بین الاقوامی فورس کی تعیناتی کی اجازت نہیں دیتا، بلکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو غوطریسسے ان مسائل پرمتبادل پیش کرنے کی اپیل کرتا ہے۔ووٹنگ سے قبل امریکہ نے کونسل کے اراکین کے درمیان ‘تنازع کے بیج بونے کی کوششوں‘ کو نشانہ بناتے ہوئے اپنی قرارداد کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مہم تیز کر دی ہے۔اقوام متحدہ میں امریکی سفیر مائیک والٹز نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ’’اس قرارداد کی حمایت سے انکار یا تو حماس کے کے مسلسل اقتدار کے لیے یا پھر اسرائیل کے ساتھ جنگ کی طرف واپسی کیلئے ایک ووٹ ہے جو خطے اور اس کے لوگوں کو مستقل تنازع کی مذمت کرتا ہے۔‘‘
امریکی مسودہ کو کئی عرب ممالک کی حمایت حاصل
قطر، مصر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، انڈونیشیا، پاکستان، اردن اور ترکی کی طرف سے دستخط شدہ متن کی حمایت کا مشترکہ بیان شائع کرتے ہوئے امریکہ نے مشہور کیا ہے کہ اسے کئی عرب اور مسلم اکثریتی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔کئی سفارت کاروں نے اے ایف پی کو بتایا کہ دوسرے رکن ممالک کی جانب سے روسی تنقید اور ہچکچاہٹ کے باوجود، وہ توقع کرتے ہیں کہ امریکی مسودہ کو اپنا لیا جائے گا۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے رچرڈ گوون نے اے ایف پی کو بتایاکہ روسی جانتے ہیں کہ ایسے میں جب کہ کونسل کے بہت سے اراکین امریکی منصوبے کا ساتھ دیںگے، امریکی متن پر ان کے اعتراضات برقراررہیں گے۔تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں شبہ ہے کہ ماسکو عرب ممالک کی حمایت یافتہ قرارداد پر اپنا ویٹو استعمال کرے گا۔ گوون نے مزید کہا کہ میرے خیال میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ چین اور روس اس منصوبے کے بارے میں اپنے شبہات کا اظہار کریں گے۔
منصوبے پر عرب اسلامی ممالک کا اتفاق
مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے اعلان کیا ہے کہ غزہ پٹی میں بین الاقوامی استحکام فورس کے حوالے سے عرب اسلامی ممالک میں اتفاق ہے۔ انہوں نے میڈیا کوبتایا کہ عرب اور اسلامی ملکوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورس کا کام پٹی میں جنگ بندی کے معاہدے کے نفاذ کی نگرانی اور جائزہ لینا ہوگا۔ انہوں نے اس میں حصہ لینے کیلئے متعدد ملکوں کی جانب سے خواہش کی بھی تصدیق کی۔مصری وزیر نے مزید کہا کہ ان کے ملک نے غزہ میں نسل کشی کی جنگ کو روکنے میں کامیابی حاصل کرکے ایک بڑی پیش رفت کی ہے۔