Inquilab Logo

سعودی عرب کی اسرائیلی منصوبے کی مخالفت، فلسطینی موقف کی حمایت

Updated: May 23, 2020, 4:32 AM IST | Riyadh

ریاض حکومت نے بیان جاری کرکے اسرائیلی کی جانب سے غرب اردن کے علاقوں کو اپنی سرحد میں شامل کرنے کے عمل کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برخلاف اور امن کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والا قرار دیا۔ وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں فلسطینی عوام کی خواہش کے مطابق ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر بھی زور دیا جس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہوگا۔ محمود عباس کے اقدام کے تعلق سے بیان میں کوئی تذکرہ نہیں ۔

West Coast ghettos. Photo: INN
مغر بی کنارے پر آباد یہودی بستیاں۔ تصویر: آئی این این

سعودی عرب نے امریکہ کی سنچری ڈیل کے مطابق مقبوضہ مغربی کنارے کے بعض علاقوں کو ہتھیانے کے اسرائیلی منصوبے کومسترد کردیا ہے اور فلسطینی عوام کی خواہش کے مطابق ایک ایسی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کا اعادہ کیا ہے جس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہو۔سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’مملکت کسی بھی یک طرفہ کارروائی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی اقدام کی مذمت کرتی ہے جس سے خطے میں سلامتی اور استحکام کے حصول کیلئے امن عمل کی بحالی کے امکانات کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔‘‘ واضح رہے کہ سعودی عرب کا یہ بیان فلسطینی صدر محمود عباس کی جانب سے ۲؍ روز قبل اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ تمام معاہدوں سے دستبردار ہونے کے اعلان کے بعد آیا ہے۔ 
 سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق وزارت خارجہ نے سعودی عرب کی جانب سے فلسطینی عوام کی خواہش کے مطابق اور بطور دارالحکومت مشرقی بیت المقدس کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی غیرمتزلزل حمایت کےعزم کا اعادہ کیا ہے۔سعودی عرب نے عالمی قوانین کے مطابق مذاکرات کو آگے بڑھانے کی کوششوں کی بھی حمایت کی ہے تاکہ فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق تنازع کا جامع اور منصفانہ حل تلاش کیا جاسکے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا تھا کہ وہ نئی حکومت کے قیام کے ساتھ یہودی بستیوں اور مقبوضہ مغربی کنارے میں واقع وادیِ اردن میں اسرائیلی قانون کا اطلاق کرسکتے ہیں ۔ان کے بقول ’’اسی علاقے میں قوم یہود کی پیدائش ہوئی اور وہ پروان چڑھی تھی۔‘‘ عالمی برادری نے بدھ کو اسرائیل کے جولائی تک مقبوضہ مغربی کنارے کے بعض حصوں کو ہتھیانے کے منصوبے کی مذمت کی تھی جبکہ امریکہ نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بیانات ازکار رفتہ ہیں ۔واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو ایک عرصے سے غربِ اردن میں فلسطینی اراضی پر قائم یہودی بستیوں اور دوسرے علاقوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کا اعلان کرتے آئے ہیں لیکن انھیں اس پر عمل درآمد کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔اس سال کے اوائل میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اعلان کردہ امن منصوبے سے انھیں شہ ملی ہے۔اب وہ بین الاقوامی برادری کی مخالفت کے باوجود فلسطینی علاقوں کو ہتھیانے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں اور ٹرمپ انتظامیہ اس ضمن میں ان کی بھرپور حمایت اور حوصلہ افزائی کررہا ہے۔
 وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کے سابق سیاسی حریف اور اب اقتدار میں ساتھی بینی گینز کے درمیان مخلوط حکومت کی تشکیل کیلئے طے شدہ سمجھوتے کے تحت نئی کابینہ یکم جولائی سے یہودی بستیوں کو ضم کرنے کے منصوبے پر غور شروع کرے گی۔امریکہ کے سابق نائب صدر اور اب نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے مدمقابل ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن نے فلسطینی اراضی کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کی مخالفت کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے امن کیلئے امید کو نقصان پہنچے گا۔ چہار سمت مذمتوں کے باوجود امریکہ اسرائیلی منصوبے کے ساتھ کھڑا ہے۔ 
 ویٹی کن چرچ کا اظہار تشویش
عیسائیوں کے رومن کیتھولک فرقے کے مرکز ویٹی کن نے اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے کے بڑے حصےکو ہتھیانے کے منصوبے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔چرچ نے کہا ہےکہ اس سے امن مذاکرات کے امکانات مزید معدوم ہوجائیں گے۔ فلسطینیوں کے اعلیٰ مذاکرات کار صائب عریقات نے بدھ کو ویٹی کن سٹی کے خارجہ پالیسی کے سربراہ آرچ بشپ پال رچرڈ گالگر سے ملاقات کی تھی۔اس کے بعد ویٹی کن نے بیان جاری کیا کہ بین الاقوامی قانون کا احترام اور اقوام متحدہ کی قراردادیں فلسطینی اور اسرائیلی دونوں عوام کے ساتھ ساتھ رہنے کیلئے ایک ناگزیر عنصر کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
 محمود عباس کے فیصلے پر پومپیو کا اظہار تشویش
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اسرائیل کے غرب اردن کے علاقوں کو ہتھیانے کے مجوزہ منصوبے کے ردعمل میں فلسطینیوں کی جانب سے سیکوریٹی معاہدوں کو مسترد کرنے کی دھمکیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے منگل کی شب اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ طے شدہ تمام سمجھوتوں سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ان میں سہ فریقی سیکوریٹی تعاون سے متعلق سمجھوتے بھی شامل ہیں ۔مائیک پومپیو نے کہا کہ ’’ہم یہ امید کرتے ہیں ، سیکوریٹی انتظامات جاری رہیں گے اور اسرائیلی اور فلسطینی عوام کو محفوظ رکھنےکاکام جاری رہے گا۔‘‘انھوں نے فلسطینی صدر کے اعلان کے تعلق سےکہا’’مجھے افسوس ہے کہ انھوں نے ان سمجھوتوں کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘مپومپیو نے گزشتہ ہفتے مقبوضہ بیت المقدس میں نیتن یاہو سے ملاقات کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی بھی صدر ٹرمپ کے منصوبے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔اس میں ان سے ایک آزاد مگر غیر فوجی ریاست کا وعدہ کیا گیا ہے۔مگر امریکی وزیر خارجہ کے بہ قول’’ فلسطینی صدر ٹرمپ کے امن کے ویژن کے مطابق مذاکرات کی میز پر مل بیٹھنے ہی سے انکار کررہے ہیں ۔‘‘اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو ایک عرصے سے غربِ اردن میں فلسطینی اراضی پر قائم یہودی بستیوں اور دوسرے علاقوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کے اعلان کرتے رہے ہیں لیکن انھیں اس پر عمل درآمد کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔
 اس سال کے اوائل میں امریکی صدرکے اعلان کردہ امن منصوبے سے انھیں شہ ملی ہے اوروہ عالمی برادری کی مخالفت کے باوجود فلسطینی علاقوں کو ہتھیانے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں اور ٹرمپ انتظامیہ ان کی بھرپور حمایت اور حوصلہ افزائی کررہی ہے۔وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور ان کے سابق سیاسی حریف اور اب اتحادی بینی گینز کے درمیان مخلوط حکومت کی تشکیل کے لیے طے شدہ سمجھوتے کے تحت نئی کابینہ یکم جولائی سے یہودی بستیوں کو ضم کرنے کے منصوبے پر غور شروع کرے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK