Inquilab Logo

شندے سرکار بچ گئی ، اُدھو کی اخلاقی فتح، گورنر کی سخت سرزنش

Updated: May 12, 2023, 9:45 AM IST | new Delhi

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میںگورنر اور اسپیکر دونوں کو آئینی بحران کیلئے ذمہ دار قرار دیا لیکن معاملہ ۷؍ ججوں کی آئینی بنچ کے سپرد، چیف جسٹس نے کہا کہ’’ اگر ادھو ٹھاکرے استعفیٰ نہ دیتے تو آج ہم انہیں بحال کردیتے‘‘

Uddhav Thackeray and Sanjay Raut reacting to the Supreme Court`s decision in a press conference. (Photo: PTI)
سپریم کورٹ کے فیصلے پر پریس کانفرنس میں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ادھو ٹھاکرے اور سنجے رائوت ۔(تصویر : پی ٹی آئی )

 سپریم کورٹ کی ۵؍ ججوں کی آئینی بنچ  مہاراشٹر کے سیاسی بحران کے حوالے سے کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی لیکن اس نے جو فیصلہ دیا وہ  شندے حکومت کے لئے تازیانہ ثابت ہو سکتا ہے جبکہ ادھو ٹھاکرے کے لئے اخلاقی فتح کی نوید بن کر آیا ہے۔ ہر چند کہ اس فیصلے کی وجہ سے شندے حکومت گرنے سے بچ گئی لیکن سپریم کورٹ نے ادھو ٹھاکرے کے تعلق سے جو تبصرہ کیا وہ  حساس ذہن اور سیاسی و سماجی  اخلاقیات پر یقین رکھنے والوں کے لئے بہت بڑی بات ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) نے کہا کہ ادھو ٹھاکرے نے استعفیٰ دے دیا، اگر وہ استعفیٰ نہ دیتے تو ہم آج انہیں ان کے عہدے پر بحال کرنے کا حکم جاری کردیتے ۔شیو سینا نے اسی تبصرہ کو بنیاد بناکر ایکناتھ شندے حکومت سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف چیف جسٹس نے اسے ملک کی تاریخ کے بڑے آئینی بحرانوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے  معاملہ کو ۷؍ججوں کی بڑی بنچ کے سپرد کر دیا لیکن اس دوران اپنے فیصلے میں کئی سخت تبصرے کئے۔
چیف جسٹس نے کیا کہا ؟
  سی جے آئی نے کہا کہ نبام ریبیا کیس میں اٹھائے گئے سوالات کو مزید بڑی بنچ کے پاس بھیجنا  ضروری ہو گیا ہے کیوں کہ  اس میں مزید وضاحت کی ضرورت ہے۔معاملہ لارجر بنچ کو منتقل کرتے ہوئے آئینی بنچ نے سخت ریمارکس دیئے کہ اسپیکر کو دو گروپس کی تشکیل کا علم کیسے ہوا؟ اسپیکر نے یہ کیسے مان لیا کہ دو گروپ بن گئے ہیں؟ بھرت گوگائو لے کو چیف وہپ بنانے کا اسپیکر کا فیصلہ غلط تھا۔ اسپیکر کو تحقیقات کر کے فیصلہ کرنا چا ہئے تھا۔ اسپیکر کو صرف پارٹی وہپ کو تسلیم کرنا چاہئے، انہوں نے صحیح وہپ کا پتہ لگانے کی بھی کوشش نہیں کی۔ چیف جسٹس نے مزیدکہا کہ ایسے مسائل جیسے کہ کیا اسپیکر کو ہٹانے کا نوٹس نااہلی کے نوٹس جاری کرنے کے اسپیکر کے اختیارات کو محدود کر دے گا؟ اس کی جانچ بڑی بنچ کے ذریعے کرنے کی ضرورت ہے۔
گورنر کے رول پر بنچ برس پڑی 
 دوسری جانب گورنر سے متعلق سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ گورنر وہ نہ کریں جس کا حق آئین نے نہیں دیا ہے۔ اس معاملے میں گورنر کا رول نہایت مشکوک رہا ہے۔ اگر حکومت اور اسپیکر تحریک عدم اعتماد پر بحث کو ملتوی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو گورنر فیصلہ کر سکتے ہیں لیکن اس معاملے میں اراکین اسمبلی نے خط میں یہ نہیں کہا کہ وہ ایم وی اے حکومت کو ہٹانا چاہتے ہیں۔  انہوں نے صرف اپنی پارٹی کی قیادت پر سوالات اٹھائے تھے۔ ایسے میں گورنر یہ فیصلہ کیسے کرلیا کہ  وہ فلور ٹیسٹ چاہتے تھے۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی فریق میں عدم اطمینان فلور ٹیسٹ کی بنیاد نہیں ہونا چا ہئے۔ گورنر کو جو بھی تجاویز موصول ہوئیں وہ واضح نہیں تھیں۔ یہ معلوم نہیں تھا کہ ناراض اراکین اسمبلی نئی پارٹی بنا رہے ہیں یا کہیں ضم ہو رہے ہیں۔ اس بنیاد پر گورنر  نے فیصلہ کیسے کیا ؟ 
موجودہ اسپیکر کو نااہلی کا فیصلہ کرنے کی ہدایت 
 سپریم کورٹ کی آئینی بنچ جس میں چیف جسٹس چندر چڈ کے علاوہ جسٹس شاہ ،جسٹس کرشنا مراری، جسٹس ہیما کوہلی اور جسٹس نرسمہا شامل تھے، نے مزید کہا کہ وہ  ۱۶؍ اراکین نااہلی کا فیصلہ نہیں کریں گے۔ اسپیکر کو اس معاملے میں جلد فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ پارٹی میں پھوٹ نااہلی کی کارروائی سے بچنے کی بنیاد نہیں بن سکتی۔  بنچ نے یہ بھی کہا کہ وہ ادھو ٹھاکرے کو اب دوبارہ بحال نہیں کرسکتے کیوں کہ انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اگر وہ برقرار رہتے اور فلور ٹیسٹ کا سامنا کرتے  اور اس میں ناکام بھی ہوتے تو ہم فلور ٹیسٹ کو غیر قانونی قرار دے کر ادھو ٹھاکرے کو بحال کردیتے لیکن موجودہ صورتحال میں یہ ممکن نہیں ہے۔
شندے کو لیڈر منتخب کرنا غیر قانونی 
 سپریم کورٹ نے اس دوران اپنے فیصلے میں اس نکتے کی طرف بھی سبھی کی توجہ مبذول کی کہ اسپیکر کی جانب سے شندے کو قانون ساز پارٹی کا لیڈر قرار دینا غیر قانونی تھا ۔  کورٹ نے کہا کہ یہ فیصلہ سیاسی پارٹی کی مرضی کے بغیر کیا گیا اور اسپیکر نے اس تعلق سے کوئی تفتیش نہیں کی جبکہ ایسا کرنا ان کی آئینی ذمہ داری ہے۔  خیال رہے کہ گزشتہ سال ایکناتھ شندے گروپ کی بغاوت کے بعد شیوسینا دو حصوں میں بٹ گئی تھی۔ ادھو ٹھاکرے نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعداس وقت کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے شندے کو حکومت بنانے کے  لئے بلایا تھا اور اسی دوران اسپیکر نے شندے کو قانون ساز پارٹی کا لیڈر منتخب کرلیا تھا  ۔
وہپ طے کرنے کا اختیار سیاسی پارٹی کا ہے 
 سپریم کورٹ نے  اپنے فیصلے میں یہ بھی واضح کردیا کہ وہپ مقرر کرنے کا اختیار قانون ساز اراکین یا اس کے لیڈر کا نہیں بلکہ سیاسی پارٹی کا ہے۔ اس معاملے میں بھی اسپیکر سے غلطی ہوئی ہے۔ کورٹ نے کہا کہ اسپیکر کو اس معاملے میں مکمل تفتیش کرنی چاہئے تھی لیکن وہ نہیں ہوا۔

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK