Inquilab Logo

ملک میں نفرت انگیزی کیخلاف سیدہ حمید سپریم کورٹ پہنچیں، مذہبی آزادی کے منافی قرار دیا

Updated: December 10, 2022, 10:25 AM IST | new Delhi

پلاننگ کمیشن کی سابق چیئر پرسن نے بی جےپی حامی ایڈوکیٹ کی’جبری تبدیلی ٔ مذہب‘ سے متعلق پٹیشن میں مداخلت کار بننے کیلئے درخواست داخل کی، حوالہ دیا کہ مذہب کی بنیاد پر معاشی بائیکاٹ کے نعرے اور جنسی تشدد و ہرسانیاں بھی مذہب کی آزادی اور آئین کی دفعہ ۲۵؍ کے ذریعہ فراہم کردہ حقوق کے خلاف ہیں

Padma Shri Syeda  Saiyidain Hameed
پدم شری سیدہ سیدین حمید

  پلاننگ کمیشن کی سابق چیئر پرسن،  پدم شری ایوارڈ یافتہ  سیدہ سیدین حمیدنے ملک میں نفرت انگیزی  کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے اوراسے مذہبی آزادی کے منافی قرار دیا ہے۔  بی جےپی حامی ایڈوکیٹ اشوینی کمار اپادھائے نے ’’جبری تبدیلی ٔ مذہب‘‘ کے خلاف جو پٹیشن سپریم کورٹ میں داخل کی ہے، اسی میں مداخلت کار بننے کیلئے داخل کی گئی پٹیشن میں ڈاکٹر سیدہ سیدین  نے نشاندہی کی کہ مذہب کو بنیاد بنا کر کی جانے والی نفرت انگیز تقاریر، مذہب کی بنیاد پر معاشی بائیکاٹ کے نعرے اور خواتین کو ان کے مذہب کی بنیاد پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جانا بھی آئین کے  آرٹیکل ۲۵؍  کے تحت دیئے گئے مذہب کی آزادی کے منافی ہے۔ 
 حمیدین پہلے ہی ملک میں نفرت انگیز تقاریر کے معاملوں میں  ہونے والے اضافے  کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرچکی ہیں۔ اپنی تازہ پٹیشن میں انہوں نے نشاندہی کی مذہب کی آزادی  اور نفرت انگیز تقاریر کا معاملہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔  انہوں  نے کم از کم ۴؍ ایسے معاملات سپریم کورٹ میں پیش کئے جن کی سے ملک کے شہری اپنی مذہبی آزادی اور ضمیر کی آزادی پر عمل سے محروم رہ جاتے ہیں۔  انہوں نے  پہلی مثال یہ پیش کی کہ جب نفرت انگیز تقاریر منصوبہ بند طریقے سے فروغ پانے لگے اور کسی خاص مذہب کو اس  کے ذریعہ نشانہ بنایا جائے۔  انہوں نے کورٹ کو آگاہ کیا کہ نفرت انگیز تقاریر سماجی نابرابری کا باعث بنتی ہیں جو کمزور طبقات کو متاثر کرتی ہیں  اور اس سے ان کی  مذہبی اور ضمیر کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔ 
 انہوں نے  دوسری مثال پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب کسی عقیدہ کی بنیاد یا کسی مذہبی شناخت سے وابستگی کی بنیاد پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جائے یا نشانہ بنانے کی دھمکی دی جائے تو مذہب پر آزادانہ طور پر عمل کرنے کا حق مجروح ہوتا ہے۔  سیدہ سیدین حمید نے اپنی پٹیشن میں تیسری مثال مذہب کی بنیادپر معاشی بائیکاٹ کے نعروں  کی  دی ۔ا نہوں نے ہری دوار کے حالیہ معاملات کی نشاندہی کی جن میں مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا نعرہ دیاگیا اوران کے خلاف تشدد پر اکسانے کی کوشش کی گئی۔ پٹیشن میں کہاگیا ہےکہ اس کی وجہ سے ’’ہندو شہریوں کے بیچ گھرے ہونے‘‘ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ایسی حرکتوں سے خوف پیدا ہوتا ہے اور لوگ اپنی مذہبی شناخت چھپانے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔  چوتھی مثال انہوں نے نوکرشاہوں کی کارروائیوں کی پیش کی۔ا نہوں نے بتایا کہ ایسی مثالیں موجود  ہیں  جب عوامی مقامات پر نماز پڑھنے پر ضابطہ فوجداری کے تحت کیس درج کرلیاگیا مگر دوسرے فرقوں کی جانب سے عوامی مقامات پر کی جانے والی عبادتوں پر ایسے کیس درج نہیں ہوئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK