گجرات سرکار کے فیصلے کے خلاف پٹیشن پر اعتراض، عرضی گزاروں کے اختیار پر سوال اٹھایا ، خارج کرنےکا مطالبہ
EPAPER
Updated: September 26, 2022, 10:31 AM IST | Agency | New Delhi
گجرات سرکار کے فیصلے کے خلاف پٹیشن پر اعتراض، عرضی گزاروں کے اختیار پر سوال اٹھایا ، خارج کرنےکا مطالبہ
گجرات فساد کے دوران بلقیس بانواوران کے گھر کی دیگر خواتین کی آبروریزی اور ۳؍ سالہ بیٹی سمیت کئی افراد کےبہیمانہ قتل کے ایک مجرم اپنی اوراپنے ساتھی مجرمین کی رہائی کے حق میں سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔ رادھے شیام بھگوان داس شاہ نے ایڈوکیٹ رشی ملہوترا کے توسط سے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی ہے ۔ اس نے معافی کے فیصلے کے خلاف داخل کی گئی پٹیشن کو’’قیاس آرائی پر مبنی اور سیاسی سے متاثر‘‘ قرار دیتے ہوئے خارج کرنے کی اپیل کی ہے۔ شاہ نے عرضی داخل کرنے والے افراد کے اختیار کو بھی یہ کہتے ہوئے چیلنج کیا ہے کہ ’’جو کچھ بھی کیس ہے اس سے ان کاکوئی لینا دینا ہی نہیں ہے، وہ یا تو سیاسی کارکن ہیں یاپھر ان کی حیثیت کسی انجان تھرڈ پارٹی کی ہے ۔‘‘ رادھے شیام کا دعویٰ ہے کہ سپریم کورٹ ’’بار بار واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ انجان فریق کا جس کاکسی فوجداری معاملے میں مداخلت کا کوئی جواز نہ ہو، اسے آئین کے آرٹیکل ۳۲؍ کے تحت پٹیشن فائل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ مجرم نے سپریم کورٹ کو متنبہ کیا ہے کہ اس طرح کے پٹیشنوں کو سماعت کیلئے قبول کرنے سے نہ صرف ایک طے شدہ اصول کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ پٹیشنوں کی باڑھ کو دعوت دینا ہوگا اور کوئی بھی عام شہری کسی بھی فوجداری معاملے میں کسی بھی عدالت میں کود پڑےگا۔
واضح رہے کہ عین ۱۵؍ اگست کو یوم آزادی کے موقع پر بلقیس بانو کیس کے سفاک مجرمین کو رہا کرنے کے حکم کے خلاف داخل کردہ دو پٹیشنوں میں سپریم کورٹ اب تک نوٹس جاری کرچکاہے۔ ان میں پہلی پٹیشن سی پی ایم لیڈر سبھاشنی علی،صحافی ریوتی لال اور درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ روپ ریکھا ورما کی ہے۔ دوسری پٹیشن ٹی ایم سی کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا نے داخل کی ہے۔ رادھے شیام شاہ نے سبھاشنی علی اور دیگر کی پٹیشن کے خلاف درخواست کی ہے۔ بلقیس بانو کیس کے مجرمین کی رہائی پر مسلمانوں ، سیکولر حلقوں اور انصاف پسند طبقات میں شدید ناراضگی ہے جس کا اظہار احتجاج اور مظاہروں کی شکل میں کیا جاچکاہے مگر مودی حکومت نے اب تک اس معاملے پر خاموشی اختیارکررکھی ہے۔ حالانکہ مجرمین کی رہائی میں اس کی مرضی بھی شامل ہے کیوں کہ جانچ سی بی آئی نے کی تھی اوراس کی منظوری کے بغیر ملزمین کو رہا نہیں کیا جاسکتاتھا۔