Inquilab Logo

افق ِافسانہ کا روشن ستارہ بجھ گیا، سلام بن رزاق کا انتقال، ادبی دُنیا سوگوار

Updated: May 08, 2024, 8:34 AM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

مرین لائنس، ممبئی کے بڑا قبرستان میں سیکڑوں چاہنے والوں کی موجودگی میں تدفین، ایک عہد کا خاتمہ، سلام دورِ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا اہم حصہ رہے۔

Authentic name of Urdu fiction: Salam bin Razzaq. Photo: INN
اُردو افسانے کا معتبر نام: سلام بن رزاق۔ تصویر : آئی این این

بر صغیر کے صف اول کے افسانہ نگار، ادیب، مترجم اور معلم سلام بن رزاق ، جو کافی عرصہ سے علیل تھے، اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اُنہوں نے سانپاڑہ (نوی ممبئی) میں اپنی بیٹی کے گھر آخری سانس لی۔ انتقال کے وقت اُن کی عمر ۸۳؍ سال تھی۔ دورانِ علالت بھی ان کی علمی و ادبی سرگرمیاں جاری تھیں۔ پسماندگان میں بیوہ،ایک بیٹی ،ایک بیٹا، پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں شامل ہیں۔ مرین لائنس میں واقع بڑا قبرستان میں ان کی تدفین کے وقت  اعزہ اور متعلقین کے علاوہ علم و ادب کی متعدد شخصیات موجود تھیں۔ اس سانحہ پر اردو دنیا سوگوار ہے۔ ان کی کمی تادیر محسوس کی جائے گی۔ 
 سلام بن رزاق نے جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا دور دیکھا اور اس کا اہم حصہ رہے۔ اپنے افسانوں کے ذریعہ اُنہوں نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا۔ بیانیہ اُن کے افسانوں کی سب سے بڑی خصوصیت تھی۔ ہر چند کہ ان کی شناخت ممبئی سے تھی مگر ان کا آبائی وطن پنویل تھا جہاں سے وہ۶۰ء کی دہائی میں بغرض ملازمت ممبئی آئے تھے۔ یہاں  انہوں نے تقریباً ۳۷؍ سال ممبئی میونسپل کارپوریشن کے اسکولوں میں بطور استاذفرائض انجام  دئیے   اور ۹۰ء کی دہائی میں نہرو نگر میونسپل اسکول نمبر ۲؍ سے بطور ہیڈ ماسٹر وظیفہ یاب ہوئے۔ ابتداء میں اُن کی سکونت کرلا میں تھی مگر بعد کی زندگی میں وہ  میرا روڈ اور پھر اُلوے (نوی ممبئی) منتقل ہو گئے تھے۔

یہ بھی پڑھئے: پھٹکاگینگ ممبروں کے ذریعے زہردینے کا دعویٰ کرنے والے پولیس کانسٹبل کی موت شراب نوشی سے ہوئی تھی

سلام بن رزاق کی قدر و منزلت نہ صرف اردو کے حلقوں میں بلکہ ہندی اور مراٹھی میں بھی یکساں تھی۔ حالانکہ وہ بطور شاعر ادبی دنیا میں داخل ہوئے تھے لیکن ان کی شہرت اور شناخت ان کے افسانوں کی وجہ سے ہوئی۔ اُن کی فکر، فنی شعور، منفرد اسلوب و انداز، تخلیقی ہنر مندی، زبان و بیان کی ندرت ،کہانیوں کی بے مثال بُنت، بیا نیہ اور موضوعاتی تنوع  سے اردو اور دیگر زبانوں کے اہل علم و قلم متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ سلام بن رزاق  نے ترقی پسند تحریک کے عروج کے دور میں افسانہ نگاری کا آغاز کیا لیکن جلد ہی جدیدیت کی راہ اپنالی۔ اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ننگی دوپہر کا سپاہی‘‘ ۱۹۷۷ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ انہوں نے اپنے افسانوں کیلئے ممبئی کی معاشرتی زندگی کے چلتے پھرتے کرداروں سے استفادہ کیا او رانہیں  لازوال بنادیا۔

سلام بن رزاق نے اپنی کہانیوں میںممبئی کی دوڑتی بھاگتی زندگی  اور یہاں کے کرداروں کا کرشن چندر ، بیدی اور منٹو کی طرح  ایکسرے تو نہیں کیا  لیکن  جو کردار تخلیق کئے ان میں ممبئی کی چالیاں ، یہاں کی گلیاں اور یہاں کے لوگ رہتے بستے تھے۔ سلام صاحب نےاپنے اطراف کی دنیا کو جیسے پایا ویسے ہی اپنے افسانوی فریم میں سجادیا۔  ان کے افسانوی کرداروں نے  انہیںعام آدمی کا خاص کہانی کار بنا دیا تھا۔   افسانوں کے علاوہ سلام صاحب   نے ڈرامے، تنقیدی مضامین، بچوں کا ادب اور ترجمہ نگاری پر بھی خصوصی توجہ  دی ۔ ان کی تخلیقات  اور تحریروں کو برصغیر کے تمام موقر رسالوں نے اہتمام سے شائع کیا۔ پچاس سے زائد افسانے ریڈیو آکاش وانی  سے نشر ہوئے جبکہ ایک درجن سے زائد افسانوں کوڈراموں کی شکل میں پیش کیا گیا ۔ انہوں نے متعدد فلموں اور ٹی وی سیریلوں میں رائٹر اور اسسٹنٹ رائٹر کے طور پر بھی کام کیا ۔
  آدھا درجن کے قریب رسائل نے سلام صاحب کے فن پر نمبر اور گوشے شائع کئے  نیز معروف ناقدین نے ان کی فنی ہنر مندیوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ اسی کے ساتھ ان کی فکر و فن پر پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالے بھی لکھے گئے۔سلام بن رزاق نے ہندی ، مراٹھی اور اردو سے معکوس ترجمہ نگاری بھی کی جبکہ بال بھارتی کی لسانی و نصابی کمیٹی کے اہم رکن رہے۔ان کی کل ۲۲؍کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں چار افسانوی مجموعے ( `ننگی دوپہر کا سپاہی، معبر،  `شکستہ بتوں کے درمیاں ` اور `زندگی افسانہ نہیں) شامل ہیں۔
  اُنہوں نے ایک مراٹھی ناول (مصنف مدھو منگیش کرنک) کا اُردو ترجمہ ’’ماہم کی کھاڑی‘‘ کے نام سے کیا تھا جو شائع بھی ہوا۔ سلام بن رزاق کو ادبی خدمات کیلئے ملک کے سرکاری و غیر سرکاری اداروں نے  ۴۰؍سے زائد انعامات و اعزازات سے نوازا  جن میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے لے کر مہاراشٹر اردو اکیڈمی کے ایوارڈ تک سبھی شامل ہیں۔ وہ گزشتہ چار پانچ سال سے وہاٹس ایپ پر ’’بزم افسانہ‘‘ کی  سر پرستی فرمارہے تھے۔ ان کی نگرانی میں اس بزم  نے اردو افسانے کے ذیل میں قابل ِ ذکر خدمات پیش کی ہیں ۔ یہ وہاٹس ایپ گروپ انہوں نے لاک ڈائون کے دوران شروع کیا تھا اور اب یہ بزم ایک تناور درخت کی طرح اردو افسانے کو سایہ فراہم کررہی ہے۔کچھ عرصہ پہلے اُن کی ایک اور کتاب ’’زین کہانیاں‘‘ منظر عام پر آئی تھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK