سپریم کورٹ میں سالیسٹر جنرل نے کہا کہ وقف اسلامی تصور تو ہے مگرلازمی نہیں اور وقف بورڈ کی کارکردگی سیکولر ہے اسلئے غیر مسلموں کو شامل کیا جاسکتاہے
EPAPER
Updated: May 21, 2025, 10:59 PM IST | Mumbai
سپریم کورٹ میں سالیسٹر جنرل نے کہا کہ وقف اسلامی تصور تو ہے مگرلازمی نہیں اور وقف بورڈ کی کارکردگی سیکولر ہے اسلئے غیر مسلموں کو شامل کیا جاسکتاہے
وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف داخل کی گئی پٹیشنوں پر بدھ کو سپریم کورٹ میں لگاتار دوسرے دن کی سماعت میں مرکزی حکومت نے عجیب وغریب دلائل پیش کئے۔ انہوں نے وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وقف اگرچہ اسلامی تصور ہے مگر اسلام کا لازمی مذہبی عمل نہیں ہے اور یہ کہ وقف بورڈ سیکولر انتظامی ذمہ داریاں نبھاتا ہے اس لئے اس میں غیر مسلموں کو شامل کرنا جائز اور آئینی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’وقف اسلامی تصور ہے۔ لیکن یہ اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ خیرات ہر مذہب میں موجود ہے لیکن سپریم کورٹ فیصلہ دے چکا ہے کہ صدقہ لازمی مذہبی عمل نہیں ہے۔‘‘ مہتا نے کہا کہ’’ وقف املاک کا انتظام، مناسب کھاتوں اور آڈٹ کو یقینی بنانا، یہ سب سیکولر نوعیت کے کام ہیں جو وقف بورڈ کرتا ہےاس لئے بورڈ میں غیر مسلموں کو شامل کیا جاسکتاہے۔‘‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’وقف بورڈ پر زیادہ سے زیادہ ۲؍ غیر مسلم اراکین کےہونے سے وقف کے مذہبی کردار پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ بورڈ مذہبی سرگرمیوں میں مداخلت نہیں کرتے۔‘‘ سپریم کورٹ میں سماعت کا سلسلہ جمعرات کو بھی جاری رہےگا۔ مسلم فریق کی استدعا ہے کہ اس قانون پر روک لگائی جائے کیوں کہ بنیادی مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اس طرح غیر آئینی ہے۔
تشار مہتا نے اس بات پر زور دیا کہ’’وقف بائی یوزر‘‘کو ہٹانے کا مقصد اوقاف کو مناسب دستاویزات کے ذریعے منظم کرنا ہے۔ کلکٹر کو کسی زمین کے وقف ہونے یا نہ ہونے کا اختیار سونپنے کا دفاع کرتے ہوئے سرکاری وکیل نے کہا کہ ’’افسر کے فیصلے حتمی نہیں ہیں ، عدالتی نظرثانی کے تابع ہیں۔‘‘ س پر چیف جسٹس نے کہاکہ ایک بار کلکٹر نے جانچ شروع کردی تو یہ وقف کی نہیں رہ جاتی اور جانچ کے بعد اس پر قبضہ کرلیا جائے گا۔ اس کے جواب میں ایس جی نے کہاکہ یہ گمراہ کن اور جھوٹی کہانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زمین کےمالکانہ حقوق کیلئے حکومت کو عدالتی لڑائی لڑنی ہوگی۔