Inquilab Logo

ٹیمپو چلانے کی مشقت اور تراویح پڑھانے کی سعادت

Updated: March 23, 2024, 11:25 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

حافظ انوار القادری ملِک ہر سال رمضان میں ممبئی آجاتے ہیں، بقیہ مہینوں میں وہ بارہ بنکی میں ’وکرم‘ چلاتے ہیں۔

Hafiz Anwar-ul-Qadri Malik. Photo: INN
حافظ انوارالقادری ملِک ۔ تصویر : آئی این این

ذریعۂ معاش کیلئے ٹیمپو (وِکرم) چلانے والے ۳۸؍ سال سے تراویح پڑھارہےہیں حافظ انوارالقادری ملِک۔ وہ ۲۰۰۳ء سے مالونی مہاڈا کی طیبہ مسجد میں تراویح پڑھا رہے ہیں۔ ۳۸؍ برس قبل تکمیل حفظ اوردستار بندی کے بعد سے آج تک کبھی تراویح سنانے کا ناغہ نہیںہوا۔اہم بات یہ ہے کہ حافظ انوارالقادری کسی مدرسے یا مسجد سے وابستہ نہیں ہیں اورنہ ہی تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔معاش کیلئے انہوں نے بھیونڈی میں ۱۷؍ سال تک پاورلوم چلایا۔ والدہ کی صحت خراب ہونے کے بعد مستقل طور پر اپنے گاؤں احمدپور ضلع بارہ بنکی میں رہنےکا فیصلہ کیا۔ یہاں روزی روٹی کیلئے اپنےگاؤں سے بارہ بنکی کے درمیان ٹیمپو (وِکرم) چلاتے ہیں لیکن آج تک تراویح پڑھانے کے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا۔
 دراصل یہ قرآن کریم یادرکھنے کی فکر ہے کہ حافظ انوارالقادری خواہ ٹیمپو چلائیں یا پاور لوم ، اُن کے مطابق ’’میرے دن کا آغاز تلاوت ِ کلام اللہ سے ہوتا ہے۔ کہیں بھی رہوں، کیسی ہی ضرورت ہو لیکن فجر کی نمازکے بعد پارہ دو پارہ کی تلاوت ضرور کرتا ہوں۔ اگرکبھی خدانخواستہ کوئی ایمرجنسی آن پڑی تو یہ معمول دوسرے وقت میں بہرحال پورا کرلیتا ہوں، لیکن کوئی دن تلاوت کے بغیرگزر جائے  اب تک ایسا نہیں ہوا۔ اسی کی برکت ہےکہ میں آسانی کے ساتھ رمضان المبارک میں تراویح پڑھا لیتا ہوں۔‘‘
حافظ انوارالقادری کے مطابق ’’ذریعۂ معاش مختلف ہونا اہم نہیں ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ قرآن کریم سے تعلق کیسا ہے، یعنی یاد رکھنے کی کتنی فکررہتی ہے۔ اسی تڑپ کی برکت سے مصلے پرکھڑے ہونے کی توفیق ملتی ہے ۔ورنہ اندازہ کیجئے کہ قرآن کریم حفظ کرنے کےبعد سے آج تک میں مدرسے یا مسجد سے متعلق نہیںرہا مگر تراویح پڑھانا کبھی نہیں چھوٹا۔ رمضان المبارک سے ۳؍ دن قبل ممبئی پہنچ جاتا ہوں اور عید کےبعد وطن روانہ ہوجاتا ہوں ۔ امسال بھی ۱۳؍اپریل کاٹکٹ نکال لیا ہے۔‘‘
 حافظ انوارالقادری نے اپنےقصبے احمد پور میںواقع مدرسہ اسلامیہ اہلسنت مظہرالعلوم میں اپنے دور کے بہترین حافظ وقاری محمد ہاشم سے حفظ کیا،وہ نابینا تھے۔ ابتداء میں ۲؍سال تراویح اپنے قصبے میں پڑھائی ۔ استاذ کی سختی اورانداز ِدرس یاد کرتے ہوئے کہا کہ میرے استاذ اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن انہوں نے جس طرح سے پڑھایا اورجس انداز میں اسباق سنے، غلطی پر جس طرح گوشمالی کی وہ منظر نگاہوں کے سامنے رہتا ہے۔ب اری تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اوران کے درجات بلند کرے۔
 مہاڈا کی طیبہ مسجد میں تراویح پڑھانے سے قبل حافظ انوارالقادری نے۲؍سال اپنے قصبے میں، ۴؍سال کانپور میں، ایک سال چپلون کالستہ میں، ۴؍سال بھیونڈی میں، ۴؍سال اقصیٰ میں، ۴؍ سال کراڈ میں، ایک سال بیجا پور میں کولار گاؤں میں اور ایک سال رانچی میں اور دیگر مقامات پر تراویح پڑھائی۔ لاک ڈاؤن میں اپنے گاؤں میں ۶؍ روزہ تراویح میں قرآن کریم مکمل کیا۔
نہایت مشقت کا کام کرنیوالے حافظ انوار نے نئے حفاظ کے تعلق سے اس  بات سے اتفاق کیا کہ’’حلال روزی کیلئے ذریعہ ٔمعاش کوئی بھی اپنایا جائے لیکن حافظ قرآن ہمیشہ یہ ذہن میںرکھے کہ قرآن کا بنیادی حق تلاوت ہے اور اس حق  سے غفلت نہیں ہونی چاہئے۔ اگر غفلت ہوگی تو تدریسی خدمات انجام دینے کے باوجود قرآن یادرکھنے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اگر تلاوت کا اہتمام جیسا اہتمام ہوگا تو دنیا کے کسی بھی حصے اور کسی بھی شعبے میں رہتے ہوئے قرآن کریم یاد رکھنے کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ حفاظ اسے ذہن نشین کرلیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK