Inquilab Logo

فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے بنگلور تشدد کیلئے پولیس اور فیس بک کو ذمہ دار ٹھہرایا

Updated: September 19, 2020, 4:08 AM IST | Bengaluru

شہر کی ۲۳؍ ممتاز شخصیات پر مبنی تحقیقاتی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کے یہ تشدد دعووں  کے برخلاف فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں تھا، پولیس سے نفرت انگیز پوسٹ کو بھی جانچ کے دائرہ میں  لانے کی سفارش۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

بنگلور میں  اہانت آمیز پوسٹ کے بعد پھوٹ پڑنے والے تشدد کے تعلق سے ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے جمعہ کو پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں   اس کیلئے پولیس اور فیس بک کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ رپورٹ میں   واضح کیاگیا ہے کہ مذکورہ تشدد فرقہ وارنہ نوعیت کا نہیں تھا اور پولیس کےبروقت کارروائی نہ کرنے اور فیس بک کے ذریعہ اہانت آمیز پوسٹ کو وقت پر نہ ہٹانے کی وجہ سے حالات نے پرتشدد رخ اختیار کرلیا۔ تفتیشی ٹیم نے پولیس سے سفارش کی ہے کہ تشدد کی جانچ کا دائرہ وسیع کرتےہوئے وہ نفرت انگیز فیس بک پوسٹ کو بھی اس میں  شامل کرے۔  یاد رہے کہ ۱۱؍ اگست کو ڈی جے ہلی اور کے جی ہلی علاقوں  میں  پھوٹ پڑنے والے اس تشدد میں  ۴؍ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ بعد میں   پولیس نے بلا وارنٹ راتوں کو گھروں  میں چھاپے مار کر انتہائی جابرانہ کارروائی میں  ۳۰۰؍ سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔ پولیس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے رپورٹ میں  کہاگیا ہے کہ ’’جب چھوٹے چھوٹے وفود نے پولیس اسٹیشن پہنچ کر اس معاملے میں  شکایت کی تو وہ بروقت اور موثر کارروائی کرنے میں  ناکام رہی ہے۔ ’’ڈی جے ہلی کے تشدد کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش‘‘ کے عنوان سے اس رپورٹ میں  فیس بک کے رول کو بھی اجاگر کرتے ہوئے کہاگیا ہےکہ وہ کانگریس کے رکن اسمبلی کے بھانجے پی نوین کے نفرت انگیز پوسٹ کے خلاف کارروائی میں  ناکام رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق’’میڈیا کے کئی حصوں  میں  اس تشدد کو غلط طریقے سے فرقہ وارانہ رنگ میں دکھایاگیا ہے جن میں  سازش کی تھیوریوں کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم جسے بنگلور کی مختلف سماجی تنظیموں  نے قائم کیاتھا اور جس میں بنگلور کی۲۳؍ ممتاز شخصیات شامل تھیں ، اس نتیجے پرپہنچی ہے کہ یہ تشدد فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں تھا کیوں  کہ ایسے بھی معاملات سامنے آئے ہیں  جن میں   مسلمانوں نے ہندوؤں  اور عیسائی برادران کو بچانے کیلئے انسانی زنجیر بنائی۔اس کے علاوہ جو گاڑیاں  نذر آتش کی گئی ہیں  ان میں   مسلمانوں کی گاڑیاں بھی ہیں جبکہ کول بائیرا سندرا علاقے میں  ایک مسلم فیملی کا گھر نذرآتش کیاگیاہے۔ 
 رپورٹ کے مطابق’’حالانکہ کچھ ا فراد اور ہندوؤں کے گھروں  کو اندھادھند نشانہ بنایاگیاہے مگر یہ محسوس ہوا ہے کہ اس موقع کو کچھ خاندانوں کے ساتھ ذاتی دشمنی نکالنے کیلئے بھی استعمال کیاگیا۔ اس لئے تشدد فرقہ وارانہ نوعیت کانہیں تھا۔ جن ہندو خاندانوں کے گھر تباہ کئے گئے ان میں  سے متعدد نے بتایا کہ مقامی مسلمانوں نے ہی ان کی املاک کو بچانے میں  ان کی مدد بھی کی ہے۔‘‘ رپورٹ نے پولیس کی تھیوری کو بھی غلط قرار دیاہے کہ تشدد منصوبہ بند ا ور سوچا سمجھا تھا۔۱۶؍ ستمبر کو جاری کی گئی اس رپورٹ کے تعلق سے جسٹس (سبکدوش)ایچ این ناگ موہن داس نے خبر رساں  ایجنسی آئی اے این ایس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ رپورٹ کئی سچائیوں  کو بے نقاب کرتی ہے۔یہ رپورٹ اختتام نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد پر ہمیں  حقیقت کا پتہ لگاتے ہوئے یہ معلوم کرنا ہے کہ تشدد کے پس پشت کون تھا اور کون لوگ ہیں جو اس پر قابو پانےمیں   ناکام ہوئے۔ ایسے بھی کچھ لوگ ہیں  جنہیں فساد سے فائدہ پہنچتا ہے ۔ ہمیں  ان کوڈھونڈنا ہوگا جو ذمہ دار ہیں ۔‘‘ سینئر صحافی اندودھارا ہونا پورا کے مطابق اسے روکنے کاموقع تھا مگر پولیس ایسا کرنے میں  ناکام رہی۔ پولیس سمیت ہر کوئی جانتا تھا کہ یہ حساس معاملہ ہے۔ کئی اچھے افسر ہیں مگر میری سمجھ میں نہیں   آتا انہوں نے حادثے پر قابوپانے کیلئے خاطر خواہ فورس کیوں نہیں  بھیجی۔ 
یہ رپورٹ کئی سچائیوں  کو بے نقاب کرتی ہے۔ اس کی بنیاد پر ہمیں  حقیقت کا پتہ لگاتے ہوئے یہ معلوم کرنا ہے کہ تشدد کے پس پشت کون تھا اور کون لوگ ہیں جو اس پر قابو پانےمیں   ناکام ہوئے۔
 جسٹس(سبکدوش)ایچ این ناگ موہن داس

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK