Inquilab Logo

دھولیہ کا وہ خانوادہ جہاں حفاظ کی چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے

Updated: April 04, 2024, 11:15 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

دھولیہ میں حفاظ کا ایک ایسا خانوادہ ہےجس میں چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ پردادا عظیم اللہ چند پاروں کے حافظ تھے، داداحافظ شمس الضحیٰ۴۰؍سال سے زائد مدت تک تراویح سناتے رہے اورکم وبیش ۲۰؍ برس سے اپنے چھوٹے بیٹے حافظ مولانا انوارالحق قاسمی کے پیچھے سماعت کررہے ہیں۔

Hafiz Shams al-Zhaha. Photo: INN
حافظ شمس الضحیٰ۔ تصویر : آئی این این

دھولیہ میں حفاظ کا ایک ایسا خانوادہ ہےجس میں چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ پردادا عظیم اللہ چند پاروں کے حافظ تھے، داداحافظ شمس الضحیٰ۴۰؍سال سے زائد مدت تک تراویح سناتے رہے اورکم وبیش ۲۰؍ برس سے اپنے چھوٹے بیٹے حافظ مولانا انوارالحق قاسمی کے پیچھے سماعت کررہے ہیں۔ دوسرے صاحبزادے مفتی اخلاق احمد قاسمی ۳۵؍سال سے تراویح پڑھارہے ہیں۔ ان کے ۲؍ پوتے حافظ انعام الحسن اورمحمد اَوس بھی تراویح سنارہے ہیں۔ ۷۸؍سال کی عمر ہونے کے باوجود حافظ شمس الضحیٰ کا تلاوت اور تراویح میں سماعت کا معمول برقرار ہے۔ 
پردادا عظیم اللہ نے چند پارے حفظ کئے تھے، وہ حافظ نہ ہوسکے اس کا تاحیات انہیں قلق رہا۔ دھولیہ کی معروف دینی درسگاہ، مدرسہ سراج العلوم کی تعمیروترقی کیلئے وہ ہمیشہ کوشاں رہے۔ اسی ادارے میں ان کے خانوادے نے اپنی علمی پیاس بجھائی ہے۔ ان کی قربانی اورتڑپ سے باری تعالیٰ نے ان کی نسلوں کو اس عظیم دولت سے نواز دیا اورحفاظ کا سلسلہ جاری فرما دیا۔
 یہ بھی اتفاق ہے کہ دونوں بھائیوں حافظ انوارالحق اور مفتی اخلاق احمد نے مذکورہ ادارے میں ایک ہی استاذ حافظ اسرائیل کے پاس حفظ کیا جبکہ ان کے والد بھی اسی ادارے کے تربیت یافتہ ہیں۔ حافظ اسرائیل صاحب چند سال قبل داعیٔ اجل کولبیک کہہ چکے ہیں۔ ان کے تربیت یافتہ دینی خدمات کے ذریعے ان کانام روشن کئے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: پائیدھونی :عید کے پیش نظر عارضی بازارکی پولیس نے اجازت نہیں دی

حافظ انوارالحق، فردوس نگر(دھولیہ ) میں واقع مسجد فردوس میں خطیب وامام بھی ہیں اورچند برس سے یہیں تراویح بھی پڑھا رہے ہیں۔ ۱۹۹۷ء میں تکمیل حفظ کےبعد ۱۹۹۹ء سے تراویح سنانا شروع کیا۔ اس سے قبل انہوں نے دھولیہ شہر اوراطراف کی متعدد مساجد میں تراویح پڑھائی۔ اب تک کبھی ناغہ نہیں ہوا اورنہ ہی ایسا کوئی موقع آیا جب تراویح کا معمول چھوٹا ہو۔ کوشش یہی رہتی ہے کہ رمضان المبارک سےقبل اس طرح سے تیاری ہوجائے کہ آسانی کےساتھ تراویح پڑھائی جاسکے۔ انہوں نے اپنے استاذ حافظ اسرائیل کے اندازِ درس کے تعلق سے بتایاکہ ’’ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہرطالب علم ممتاز ہو اور اسے قرآن کریم بہترین اندازمیں یاد ہوجائے اور مخارج کی رعایت کرتے ہوئے عمدگی سے تلاوت کرے۔ اس کیلئے وہ بہت سختی کیا کرتے تھے۔‘‘
حافظ انوارالحق قاسمی اپنے والد کےتعلق سے بتاتے ہیں کہ ’’ اتنی عمر کے باوجود والد کاحافظہ ماشاء اللہ بہت عمدہ ہے،وہ بہت انہماک سے سماعت کرتے ہیں۔ اس سے والد کا قرآن سے تعلق صاف جھلکتا ہے اور ان سے ہمیں بھی سبق ملتا ہے۔ والد صاحب سبھی کو متوجہ کرتے رہتے ہیں کہ قرآن کریم یاد رکھنے کے لئے تلاوت کا سلسلہ موقوف نہیں ہونا چاہئے ورنہ رمضان المبارک میں تراویح پڑھانے میں پریشانی ہوگی۔‘‘
 مفتی اخلاق احمد قاسمی دیوپور محلہ میں واقع مسجد طیبہ میں تراویح پڑھا رہے ہیں۔ وہ مدرسہ ریاض الجنہ کے استاذ بھی ہیں اور معاشی استحکام کےلئے عطر فروشی بھی کرتے ہیں۔ ان کے صاحبزادے حافظ انعام الحسن بہشتی گلی کی مسجد میں پہلی مرتبہ تراویح پڑھا رہے ہیں جبکہ وہ دیگر مساجد میں۶؍برس تراویح پڑھا چکے ہیں۔ اسی طرح حافظ انوارالحق کے صاحبزادے اورحافظ شمس الضحیٰ کے پوتے حافظ محمد اوس پہلی مرتبہ تراویح پڑھا رہے ہیں، وہ نویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے مدرسہ سراج العلوم میں حافظ سعید احمد کے پاس حفظ مکمل کیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK