سی این جی بھروانے کیلئے رکشا اور ٹیکسی ڈرائیور گھنٹوں قطار میں لگنے پر مجبور، کئی مسافروں کو منزلوں پر پہنچنے کیلئے زائد رقم ادا کرنی پڑی
EPAPER
Updated: November 18, 2025, 9:59 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai
سی این جی بھروانے کیلئے رکشا اور ٹیکسی ڈرائیور گھنٹوں قطار میں لگنے پر مجبور، کئی مسافروں کو منزلوں پر پہنچنے کیلئے زائد رقم ادا کرنی پڑی
تعمیراتی کام کی وجہ سے اتوار کو چمبور کے آر سی ایف میں ایک اہم پائپ لائن پھٹ جانے کی وجہ سے ملک کی تجارتی راجدھانی اور اطراف کے شہروں میں سی این جی (کمپریسڈ نیچرل گیس) کی سپلائی تیسرے دن بھی بُری طرح متاثر رہی اور یقین دہانی کے باوجود ’گیس اتھاریٹی آف انڈیا لمیٹڈ‘ (گیل) منگل کو پائپ لائن کی مرمت نہیں کرسکا۔ اس دوران حکومت اور متعلقہ وزراء نے اس تعلق سے خاموشی اختیار کررکھی ہے جبکہ گیل کی جانب سے انتہائی محدود اور غیر تشفی بخش معلومات فراہم کی گئی جس کی وجہ سے عوام میں بے چینی پائی جارہی ہے۔
اگرچہ جنوبی اور مشرقی ممبئی سے باندرہ سے کچھ آگے تک گزشتہ روز کے مقابلے مزید پیٹرول پمپوں پر گیس دستیاب ہوگئی تھی جس کی وجہ سے صارفین کو کچھ راحت ملی اور ان علاقوں میں صبح کے وقت اسکول بسیں بھی نظر آرہی تھیں لیکن کاندیولی، بوریولی، چارکوپ، گوریگائوں، وڈالا اور مضافات کے کئی علاقوں میں گیس کم مقامات پر دستیاب ہونے کی وجہ سے حالات ابتر رہے۔ حتیٰ کہ اندھیری اور ورسوا جیسے علاقوں میں بڑی اسکولوں میں طلبہ کو گھر پر رہ کر اسکول سے آن لائن پڑھائی کرائی گئی۔جوگیشوری مسجد روڈ پر رہائش پزیر منصور درویش نے بتایا کہ پیر اور منگل کو اسکول وین کے نہ آنے کی وجہ سے وہ اپنی پوتی اور اپنی عمارت میں رہائش پزیر دیگر ۲؍ بچیوں کو اسکول پہنچانے اور لانے پر مجبور ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ’’اسکول وین والے نے یہ کہہ کر آنے سے انکار کردیا کہ میری گاڑی میں سی این جی دستیاب نہیں ہے۔ البتہ میرے پاس اسکوٹر ہے اس لئے مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوئی لیکن میں نے دیکھا کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ پیدل بھی بچوں کو اسکول لے کر آئے تھے کیونکہ رکشا اور ٹیکسی نہیں مل رہی تھی یا وہ بہت زیادہ کرایہ مانگ رہے تھے۔‘‘شہر کے مختلف علاقوں سے رکشا اور ٹیکسی والوں کے ذریعہ معمول سے اور طے شدہ کرایے سے بہت زیادہ رقم وصول کرنے کی بھی خبریں موصول ہوئی ہیں۔
گیس کیلئے قطار میں موجود ۶۵؍ سالہ رکشا ڈرائیور محمد ایوب ہاشمی نے کہا کہ ’’میں باندرہ کے مہاراشٹر نگر، کانکیا کے پاس سے قطار میں لگا تھا اور تقریباً ۳؍ گھنٹے میں ایک کلو میٹر آگے پہنچا ہوں اور بی کے سی میں واقع پیٹرول پمپ پر پہنچنے کیلئے مزید ایک کلو میٹر آگے جانا ہے، پتہ نہیں کتنا وقت صرف ہوگا؟‘‘انہوںنے کہا کہ’’ وہ ان ۳؍ دنوں میں دوسری مرتبہ گیس کی لائن میں کھڑے ہوئے ہیں، گزشتہ روز وہ ۹؍ گھنٹے قطار میں تھے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ میٹر سے رکشا چلاتے ہیں اس لئے مسافروں سے کوئی زائد رقم نہیں لے رہے ہیں۔ شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ۲؍ رکشا ڈرائیوروں نے کہا کہ ’’ہم میں سے کئی لوگ پیٹرول پر رکشا چلا رہے ہیں۔ چونکہ گیس اورپیٹرول کی قیمتوں میں بہت زیادہ فرق ہے اس لئے زیادہ پیسے لینا مجبوری ہے ہم اپنی جیب سے پیسے لگا کر مسافروںکو پہنچانے کا نقصان تو برداشت نہیں کرسکتے۔‘‘
ان میں سے ایک نے کہا کہ ’’گیس کیلئے بہت طویل قطار لگانی پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے کئی گھنٹے برباد ہورہے ہیں ایسے میں ہم ۱۰؍ روپے جیسے معمولی اضافہ کے ساتھ شیئرنگ رکشا چلارہے ہیں کہ مسافروں پر بہت زیادہ بوجھ بھی نہ پڑے اور قطار میں ہمارے وقت کا نقصان ہورہا ہے، گیس کم ملنے سے ہم کم ڈیوٹی کرپارہے ہیں اس کی کچھ بھرپائی ہوجائے۔‘‘واضح رہے کہ ایئر پورٹ سے مختلف مقامات پر جانے والوں اور بی کے سی جیسے علاقوں میں رکشا اور ٹیکسی والوں کے ذریعہ من مانا اور انتہائی زیادہ کرایہ وصول کرنے کی شکایتیں موصول ہوئی ہیں۔
اسکول بس اونرس اسوسی ایشن (ایس بی او اے) کے صدر انل گرگ نے بتایا کہ ’’تقریباً ۲؍ ہزار اسکول بسیں متاثر ہوئی ہیں۔ منگل کو بھی میں نے ۱۲؍ ہزار روپے کرایے پر ۱۲؍ بسیں حاصل کی تھیں تاکہ طلبہ کو پریشانی نہ ہو۔ اب اسکول بسیں مختلف مقامات پر قطار میں ہیں تاکہ گیس مل جائے اور کام جاری رہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’میرا بھائندر کے چند پیٹرول پمپ مالکان نے اسکول بسوں کو چند گھنٹے بعد آنے کو کہا تھا، اس لئے وہاں سے ایندھن ملنے کی امید ہے۔ اگر وہاں سے کام نہیں بنا تو ان علاقوں کی بسوں کو گیس بھروانے کیلئے وسئی جانا پڑے گا۔‘‘