Inquilab Logo

جارج فلائیڈ قتل معاملے میں سب سے اہم گواہی

Updated: April 07, 2021, 1:50 PM IST | Agency | Washington

شہر کے پولیس چیف نے سیاہ فام مقتول کی گرد ن پر پیر رکھے جانے کو محکمۂ پولیس کے اصولوں کے خلاف قرار دیا، ملزم پولیس اہلکار کی مشکلوں میں اضافے کا امکان

Minneapolis City Police Chief Medaria Aradando in the courtroom. Picture:Agency
منی پولس شہر کے پولیس چیف میڈاریا اراڈانڈو کمرۂ عدالت میں۔ تصویر: ایجنسی

 امریکہ میں گزشتہ سال مئی میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت میں نامزد پولیس افسر ڈیرک شوون  کی مشکلوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ان کے خلاف جاری  مقدمے کی کارروائی کے دوران   پیر کو منی پولس شہر (جہاں جارج فلائیڈ کا قتل ہوا تھا)  کے پولیس ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کی گواہی قلم بند کی گئی اور اس گواہی میں پولیس چیف نے  ڈیرک شوون کے ذریعے جارج فلائیڈ کی گردن پر پیر رکھے جانے کو محکمۂ پولیس کے اصولوں کے خلاف قرار دیا۔ منی پولس شہر کے پولیس چیف میڈاریا اراڈونڈو کا کہنا تھا کہ جارج فلائیڈ کو حراست میں لینے کے بعد۹؍ منٹ سے زائد تک ان کی گردن پر گھٹنا رکھ کر دبانے والے پولیس افسر ڈیرک شوون کا یہ عمل کسی بھی طرح محکمے کی پالیسی کے مطابق نہیں تھا۔ پیر کو عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے میڈریا ارانڈونڈو کا مزید کہنا تھا کہ جارج فلائیڈ کو ہتھکڑیاں لگانے کے بعد  ان کی گردن دبانا یا  انہیں زیر کرنا محکمۂ پولیس کی پالیسی یا تربیت نہیں ہے۔ ان کے بقول اس کے ساتھ ساتھ یہ اخلاقیات اور ہماری روایات کے بھی برخلاف ہے۔ منی پولس کے پولیس  سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ’’ ہمارے یہاں افسران کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی صورتِ حال کی سنگینی کو کم کریں یا طاقت کے کم سے کم استعمال کو یقینی بنائیں۔ اسی طرح انہیں ابتدائی طبی امداد دینے کی بھی تربیت دی جاتی ہے اور یقینی طور پر یہ ہماری ذمے داری بھی ہے۔‘‘ واضح رہے کہ اب تک جارج فلائیڈ کی گرفتاری کے دوران ہونے والی موت کے وقت موجود پولیس والوں کا یہی جواز تھا کہ انہوں نے جارج فلائیڈ کے ساتھ جو کچھ کیا وہ  انہیں قابو میں کرنے کیلئے کیا تھا جس کے بغیر انہیں گرفتار کرنا مشکل تھا۔ لیکن اب پولیس چیف کے اس بیان کے بعد   ان پولیس والوں کے دعوے غلط ثابت ہو جاتے ہیں اور خاص طور پر کلیدی ملزم ڈیرک شوون جنہوں نے جارج فلائیڈ کی گردن پر اپنا پیر(گھٹنا) رکھا تھا  وہ سوالات کے گھیرے میں آجاتے  ہیں۔  واضح رہے کہ ان دنوں امریکہ کی ایک عدالت میں ڈیرک شوون کے خلاف مقدمہ چلایا جا رہا ہے جس میں ان پر جارج فلائیڈ کے قتل کا الزام ہے۔ اس معاملے میں اب تک کئی اہم گواہوں کے بیانات قلمبند کئے جا چکے ہیں جن میں سب سے اہم تھا  اس جنرل اسٹور کا ۱۹؍ سالہ کیشئر جہاں سے جارج فلائیڈ نے سگریٹ کا پاکٹ خریدا تھا اور اسے ۲۰؍ ڈالر کا نقلی نوٹ دیا تھا جس کی پاداش میں پولیس بلائی گئی تھی اور جارج فلائیڈ کے ساتھ یہ سانحہ پیش آیا تھا۔  اس نے بھی اس معاملے کی  پولیس سے شکایت کرنے پر افسوس کا اظہار کیا  تھا۔ اب تک جتنے بھی لوگوں نے اس معاملے میں گواہی دی  ہے کسی نے بھی  اس واقعے میں پولیس اہلکار کی طرف کوئی نرم گوشہ نہیں دکھایا ہے۔ حتیٰ کہ شہر کے پولیس چیف نے بھی واضح طور پر اس عمل کو  پولیس محکمہ کے اصولوں کے خلاف قرار دیدیا۔ یعنی ایک طرح سے انہوں نے ڈیرک شوون کے مجرم ہونے پر مہر لگا دی ہے۔ میڈاریا اراڈونڈو منی پولس شہر کےپہلے سیاہ فام پولیس چیف ہیں۔ انہوں نے جارج فلائیڈ کی ہلاکت کوقتل قرار دیا تھا۔ انہوں نے ہی ڈیرک شوون اور دیگر تین پولیس اہل کاروں کو محکمۂ پولیس سے فارغ کیا تھا۔حالانکہ ڈیرک شوون کے وکیل کے مطابق جارج فلائیڈ کی موت ان کی خراب صحت اور نشے کی لت کے باعث ہوئی تھی۔ وکیلِ صفائی کا مزید کہنا تھا کہ ڈیرک شوون نے پولیس کی تربیت کے مطابق جارج فلائیڈ کو گرفتار کیا تھا۔
  واضح رہے کہ جہاں منی پولس میں ایک طرف جارج فلائیڈ کے قتل کا مقدمہ جاری ہے تو دوسری طرف اس قتل کے خلاف احتجاج کرنےوالےجارج فلائیڈ کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے  مسلسل  روزانہ کسی نہ کسی تقریب کا انعقاد کر رہے ہیں ۔ ان کی جائے وفات پر پھول رکھ کر یا موم بتی جلاکر انہیں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے یا پھر  ان کے قاتلوں کو سزا دلانے کا مطالبہ کرنے سے متعلق تختیاں لے کر مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح جارج فلائیڈ کی موت کو یاد کیا جائے اور ان کے قاتلوں کو سزا دلوانے کیلئے حکام پر دبائو ڈالا جائے۔ واضح رہے کہ جارج فلائیڈ کی موت گزشتہ سال ۲۵؍ مئی کو پولیس افسر ڈیرک شوون اور ان کے ساتھی اہلکاروں کے ذریعے انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کے دوران ہوئی تھی جس کے بعد پورے ملک میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK