• Sat, 18 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ملک میں بدترین آئینی اور انسانی حقوق کی پامالی کا دور دورہ ہے ‘‘

Updated: October 18, 2025, 12:22 AM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

اے پی سی آر اوریو اےآئی ڈی کی مشترکہ پریس کانفرنس ۔آئی پی ایس افسر کی خود کشی، لداخ میںپروفیسر وانگ چک کی گرفتاری اورچیف جسٹس آف انڈیا پرجوتا پھینکنے کے واقعات پرمقررین نے اظہارِ افسوس کیا

Participants of the joint conference of APCR and UAID at Marathi Patrikar Singh. (Photo: Anqlab)
مراٹھی پترکارسنگھ میں اے پی سی آر اور یو اے آئی ڈی کی مشترکہ کانفرنس کے شرکاء۔ (تصویر: ا نقلاب)

مراٹھی پترکار سنگھ میں جمعہ کی سہ پہر اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) اوریونائیٹڈ اگینسٹ اِن جسٹس اینڈ ڈسکریمنیشن (یو اےآئی ڈی )کی مشترکہ پریس کانفرنس میںہریانہ کیڈر کے آئی پی ایس افسر کی خود کشی، لداخ میںممتاز ماہر تعلیم پروفیسر سونم وانگ چک کی گرفتاری اور چیف جسٹس آف انڈیا پرجوتا پھینکنے وغیرہ کے حیران کن واقعات کا مقررین نےاحاطہ کیا اورکہاکہ ملک انتہائی مشکل دور سےگزررہا ہے۔ یہ بھی انتباہ دیا کہ اگراسی طرح ظلم وبربریت اورجبر وتشدد جاری رہا تو عام آدمی کا ملک کے آئینی نظام سے بھروسہ ختم ہوجائے گا۔ اسی طرح سونم وانگ چک کی گرفتاری اوران پرغداری کا الزام بے بنیاد ہے ۔انہوںنے ہمیشہ آئین کے مطابق پُرامن طریقے سے جدوجہد کی ہے ، اس لئے ان کو فوراً رہا کیا جائے ۔
’’یہ ملک کے لئے خطرے کی علامت ہے ‘‘
 گاندھی جی کے پڑپوتے تشار گاندھی نے مذکورہ بالا واقعات پرحیرت اورتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ’’یہ بحران جمہوریت کے لئے انتباہ اورخطرے کی علامت ہے۔اس وقت ملک میں بدترین آئینی اور انسانی حقوق کی پامالی کا دور دورہ ہے۔ آئینی اداروں اوران کی آوازوں کو دبانا نہ صرف ظلم ہے بلکہ مستقبل کیلئے خطرہ بھی۔ اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت اور عوام ، انصاف، شفافیت اور ڈائیلاگ کے اصولوں پر آگے آئیں تاکہ ملک کا ضمیر زندہ رہے اور جمہوریت کا تانا بانا مضبوط ہو۔‘‘ انہوںنے یہ بھی کہاکہ ’’ ان تینوں واقعات کے تناظرمیںکیا کبھی سوچا جاسکتا تھا کہ اس طرح کے حالات پیدا ہوں گے۔ ہمیںیہ نہیں بھولناچاہئے کہ اگر یہ روش قائم رہی تو اس کی بھاری قیمت ملک کو چکانی ہوگی۔‘‘
 ایڈوکیٹ سریش مانے نے کہاکہ ’’ ملک میں جمہوری اقدار، شفاف حکمرانی اور اظہارِ رائے کی آزادی پر بڑھتے دباؤ کے درمیان سنگین انسانی اور آئینی بحران سامنے آ رہے ہیں۔ حالیہ مثال ہریانہ کیڈر کے آئی پی ایس افسر وائی پورن کمار کی افسوسناک موت ہے، جو محکمہ جاتی ناانصافی اور ذات پر مبنی امتیاز کے خلاف سرگرم تھے۔ ان کی اچانک موت نے شفافیت، احتساب اور نظامِ ِانصاف پر سنگین سوالات کھڑے کئے ہیں۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے جج پر جوتا پھینکنے کا واقعہ بھی سامنے آیا، جسے ماہرین نے اُن کے دلت ہونے کے سبب ہونے والا عمل قرار دیا ۔ یہ تمام واقعات ملک میں موجود ذات پر مبنی تعصب اور جمہوری آزادی کے خطرے کی عکاسی کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ’’لداخ میں بھی سنگین بحران نے جنم لیا ہے۔ ممتاز ماہرِ تعلیم اور سماجی رہنما پروفیسر سونم وانگ چک کو محض آئینی حقوق کیلئے آواز اٹھانے پر گرفتار کر لیا گیا جبکہ مظاہرہ کرنے والوں میں۴؍ شہریوں کی اموات نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے۔‘‘
  ڈاکٹر سلیم خان(جماعت اسلامی) نے کہا کہ ’’یہ واقعات ایک واضح پیٹرن کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں آئینی آوازوں اور بنیادی حقوق کو دبایا جا رہا ہے۔ لداخ کے عوام کئی برس سے آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت خصوصی آئینی تحفظ کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ ان کی زمین، روزگار، ثقافت اور ماحول محفوظ رہ سکے لیکن ان کے مطالبات کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔کیا ایسا کرناملک کےمفاد میںہوگا ؟‘‘
 شاکر شیخ  (اے پی سی آر )نے کہاکہ’’ اس پریس کانفرنس کابنیادی مقصد یہ ہے کہ ظلم خواہ کسی بھی طبقے کےساتھ ہو،ہم سب اس کے خلاف متحد ہیں اورپوری قوت سے آواز بلند کررہےہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے ۔ان تنظیموں کے قیام کا بنیادی مقصد بھی یہی ہےاورہم سب کی ذمہ داری بھی ۔‘‘ سینئر صحافی سرفراز آرزو نے بھی اسی تناظرمیںگفتگو کی ۔ 
حکومت سے ۸؍اہم مطالبات 
(۱)  ذات پر مبنی امتیاز اور تعصب کے خلاف جامع پالیسی وضع کی جائے تاکہ ہر شہری اور افسرخود کو محفوظ محسوس کرے(۲) اگر اسی طرح بربریت، ظلم اور ناانصافی جاری رہی تو عام لوگوںکا ملک کے آئینی نظام سے بھروسہ اٹھ جائے گا۔ اس لئے خاطیوں کو فوری طور پر سخت سزا دی جائے(۳) ڈاکٹر سونم وانگ چک کی فوری اور غیر مشروط رہائی عمل میںلائی جائے(۴) مظاہرین کی اموات کی آزادانہ اور شفاف عدالتی تفتیش کی جائے (۵) میڈیا ٹرائل اور کردار کشی کے خلاف پریس کونسل آف انڈیا مداخلت کرے (۶) شفافیت، قانون کی بالادستی اور افسران کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے(۷) ۱۵؍دن میں لداخ کے نمائندہ اداروں اور حکومت کے مابین مذاکرات شروع کئے جائیں(۸)اختلافِ رائے کو جرم نہ سمجھا جائے بلکہ اسے جمہوریت کے ستون کے طور پر تسلیم کیا جائے اورجو بامقصد اعتراضات ہو ں یا مطالبات ، ان کو عوام اورملک کےمفاد میںقبول کیا جائے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK