Inquilab Logo

امریکی یونیورسٹی نے مسلم طالبہ اسناء تبسم کو الوداعی تقریب سے روک دیا

Updated: April 18, 2024, 3:52 PM IST | Washington

امریکہ کی یونیورسٹی آف سندرن کیلیفورنیا (یو ایس سی ) نے ایک مسلم طالبہ اسناء تبسم کو الوداعی تقریب دینے سے روک دیا ہے۔ طالبہ کا کہنا ہے کہ انہیں مسلم مخالف اور فلسطینی مخالف نفرت کی وجہ سے خاموش کیا گیا ہے جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا کہ انہوں نے مشرقی وسطیٰ میں جاری جنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے حفاظتی اقدامات کی بناء پر یہ فیصلہ کیا ہے۔

Asna Tabasim. Photo: X
اسناء تبسم۔ تصویر:ـ ایکس

امریکہ کی یونیورسٹی آف سندرن کیلیفورنیا نے ایک مسلم طالبہ اسناء تبسم کو الوداعی تقریب دینے سے روک دیا۔ اسناء تبسم کا کہنا ہے کہ انہیں فلسطینی مخالف اورمسلم مخالف نفرت کی وجہ سے خاموش کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی نے حوالہ دیا کہ اس نے مشرقی وسطیٰ میں حالیہ جنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے حفاظتی اقدامات کی بناء پر یہ فیصلہ لیا ہے۔ 

اسناء تبسم ، جویونیورسٹی میں بائیومیڈیکل انجینئرنگ کی طالبہ ہیں، ۱۰۰؍ طلبہ میں سے الوداعی تقریب میں تقریر کرنے کیلئے منتخب کی گئی تھیں۔ یونیورسٹی کی جانب سے ۲۰۰؍ طلبہ کے گریڈ پوائنٹ کا جائزہ لینے کے بعد ان طلبہ کو الوداعی تقریر کیلئے اہل قراردیا گیا تھا۔ 
اسناء تبسم، نے اپنے بیان میں یونیورسٹی کے اس فیصلے کو چیلنج کیا ہے اور کہا ہے کہ یونیورسٹی کی جانب سے یہ فیصلہ کیاصرف حفاظتی اقدامات کو مدنظر رکھتے ہوئے لیا گیا ہے؟
رائٹرس کی رپورٹ کے مطابق یو ایس سی کے منتظم انڈریو گزمن نے پیر کو اپنے بیان میں کہاتھا کہ اگلے ماہ روایتی الوداعی تقریر کے حوالے سے لئے گئے اس فیصلے کا اظہار خیال کی آزادی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔اس کا مقصد کیمپس کی حفاظت ہے۔ 
خبر رساں ایجنسی نے یہ بھی رپورٹ کیا ہے کہ گزمن کے بیان میں اسناء تبسم کا نام نہیں لیا گیا اور نہ ہی یہ واضح کیا گیا کہ ان کی تقریر میں کیا تھا یا تقریر کا بیک گراؤنڈ اور سیاسی پہلو تشویش کی وجہ بناتھا۔نہ ہی انہوں نے اپنے بیان میں کوئی خاص خطرہ کا ذکر کیا ہے۔

تبسم نے اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے مائنر اسٹڈیش میں نسل کشی کے خلاف مزاحمت اور اتحاد اور وقار کے مطالبات کے بارے میں پڑھا تھا اور وہ اس موقع کو اپنے ساتھی طلبہ کو اس بارے میں بتانے کیلئے استعمال کرنا چاہتی تھیں۔تاہم، اسناء تبسم کی توقعات اس وقت ختم ہو گئی جب یونیورسٹی نے ان سے مشاورت کئے بغیر اور ان کی تقریر کا جائزہ لئے بغیر الوداعی تقریر کی فہرست سے ان کا نام خارج کر دیا۔

یہ بھی پڑھئے: مالدیپ: معزو کے بدعنوانی میں ملوث ہونے والی رپورٹ لیک، صدر کا الزامات سے انکار

امریکی اسلامی تعلقات کی کاؤنسل کے مطابق تبسم نے یونیورسٹی کے اس اقدام کو خوف اور مسلم مخالف اور فلسطینی مخالف نفرت قرار دیااور کہا ہے کہ سب کیلئے یکساں انسانی حقوق کے ان کے نظریے کی وجہ سے انہیں اس کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔انہوں نےیونیورسٹی کے منتظم اور سیکوریٹی اینڈ اشورینس کے اسوشی ایٹ سینئر نائب صدر کے ساتھ ۱۴؍ اپریل کو میٹنگ میں حفاظتی تشویش کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحفظ قائم کرنے کیلئے یونیورسٹی کے پاس تمام ذرائع موجود ہیں پھر بھی وہ ایسانہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ یہ نہیں دکھانا چاہتے کہ یونیورسٹی میں سیکوریٹی سخت کر دی گئی ہے۔
اس پلٹزر ایوارڈ یافتہ اوریونیورسٹی میں انگلش اور امریکی تعلیمات کی پروفیسر ویاٹ تھانہ نگوین نےاسناء تبسم کو خاموش کرنے کیلئے یونیورسٹی پر تنقید کی اور کہا کہ یونیورسٹی نے خود کو رسوا کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ الوداعی تقریب میں شرکت کرنے سے انکار کر دیں گے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: نیویارک ٹائمز کا اپنے صحافیوں کو نسل کشی جیسے درجنوں الفاظ استعمال نہ کرنے کی ہدایت

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ میں یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے ہمت اور ذمہ داری میں ناکامی کا مظاہرہ بہت ناگوار گزرا اور مجھے یونیورسٹی کے اس اقدام پر بہت غصہ ہے۔ مجھے یہ سمجھنے میں دقت ہو رہی ہے کہ اگر کسی یہودی طالب علم کو بھی اسی طرح کی دھمکیاں ملتیں تو یونیورسٹی پیچھے ہٹ  جاتی؟
 انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ یونیورسٹی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے کون کونسے اقدامات کر سکتی تھی لیکن یونیورسٹی نے طالبہ کو تقریر دینے سے روک کر یہ واضح کیا ہے کہ سنسرشپ، خاموشی اور خوفزدہ کرنے کا عمل کس حد تک گر گیا ہے۔انہوں نے یونیورسٹی کے اس عمل کو طلبہ کا تعاون کرنے میں ناکامی قرار دیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK