لوک سبھا میں سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے حکمراں محاذ کے لیڈروں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کا جن شخصیات سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا ہے، انہیں بھی اپنا بنا کر پیش کر نے کی کوشش کرتے ہیں
EPAPER
Updated: December 16, 2025, 11:10 PM IST | Lucknow
لوک سبھا میں سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے حکمراں محاذ کے لیڈروں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کا جن شخصیات سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا ہے، انہیں بھی اپنا بنا کر پیش کر نے کی کوشش کرتے ہیں
وندے ماترم کے۱۵۰؍ برس مکمل ہونے پر ہم ایک بار پھر اس ایوان میں اسے یاد کر رہے ہیں، اور ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم اس موقع پر بنکم چندر چٹرجی کو بھی یاد کررہے ہیں جنہوں نے قوم کو اتنا شاندار گیت دیا۔ یہ وہ گیت ہے جس نے لاکھوں لوگوں کو بیدار کیا، ان میں جوش بھرااور جدوجہد آزادی کے دور میں جب انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑی جارہی تھی، وندے ماترم ہمیں توانائی دیتا تھا، ہمیں طاقت دیتا تھا، ہمیں متحد کرتا تھا اور انگریزوں کے خلاف لڑنے کا ذریعہ بنتا تھا۔جس طرح مجھ سے پہلے کانگریس پارٹی کے لیڈرگورو گوگوئی نے بات رکھی اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے میں کہنا چاہتا ہوں کہ جب کولکاتا میں کانگریس کے اجلاس میں رابندر ناتھ ٹیگور جی نے یہ گیت گایا تو اس کی مقبولیت عام لوگوں تک پہنچ گئی۔
جب بھی لوگوں کو انگریزوں کے خلاف لڑنا ہوتا تھا تو وہ وندے ماترم کا نعرہ لگا کر لوگوں کو متحد کرتے تھے۔ سوَدیشی تحریک میں بھی ہم اسی نعرے کےساتھ چلے۔ نعرہ نے ہمیں اس قدر متحد کر دیا کہ انگریز گھبرا گئے اور جہاں کہیں انہیں نعرہ سنائی دیتا وہ ملک سے غداری کے قانون لگا کر لوگوں کو جیل بھیج دیتے تھے۔یہ بھی تاریخ ہے کہ بنگال میں جب بچوں نے یہ گیت اپنے کلاس روم میں گایا تو ان پر بھی مقدمے قائم کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ انگریزوں نے ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک اس پر پابندی عائد کی مگر ہمارے مجاہدین آزادی نے ہار نہیں مانی ۔
ہمارا حکمراں محاذ ہر چیز کو اپنی ملکیت بنانا چاہتا ہے۔ آج جب ہم وندے ماترم کو اس کے ۱۵۰؍ ویں سال پر یاد کر رہے ہیں اور بنکم چندر چٹرجی جی کو یاد کر رہے ہیںتو ہمیں حکمراں محاذ کی یہ روش دیکھنے کو ملتی ہے کہ جن عظیم شخصیات سے ان کا کوئی تعلق نہیں، انہیں بھی اپنا بناکر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں حکمراں محاذ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جس وقت ان کی پارٹی جس کا نام’بی جےپی‘ہے،اس کی تشکیل ہو رہی تھی اوراس کے جو صدر منتخب ہوئے تھے، انہیں جو تقریر کرنی تھی اس پر بحث ہو رہی تھی۔ یہ بحث اس بات پر تھی کہ بی جےپی سیکولر اورسوشلسٹ راستے پر جائے گی یا نہیں؟ تمام بحث مباحثہ کے بعد بھی اس وقت کے ان کے منتخب قومی صدر نےوہی راستہ اپنایا۔انہوں نے اپنی تقریر میں سماجوادی تحریک، سماجوادی نظریہ اور سیکولر راستہ اختیار کیا۔اتنا ہی نہیں، ان کے اسٹیج پر جے پرکاش نارائن کی تصویر لگا کر یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ بی جےپی جے پرکاش کے راستے پر چلے گی۔
اب میں معزز وزیر سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ آج کتنے سیکولر اور کتنے سوشلسٹ ہیں؟ابھی گورو گوگوئی جی نے ٹھیک کہا کہ انڈیگو کے جہاز نہیں اُڑ رہے۔ اُڑ نہیں رہے ہیں یا اُڑائے نہیں جا رہے؟ حالانکہ یاد کیجئے کہ کیا کہا گیا تھا؟ کہ غریب بھی اس میں سفر کر سکے گا۔ میں بات کو دوسری طرف نہیں لے جانا چاہتا۔ وندے ماترم صرف گانے کیلئے نہیں ہے،بلکہ اس میں جو کچھ کہا گیا ہے،اس کا جو مقصد ہے، اسے نبھانا بھی چاہئے۔ذرا اپنا محاسبہ کریں اور پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ ہم وندے ماترم کو کتنا نبھا رہے ہیں۔جس وندے ماترم نے آزادی کی تحریک میں سب کو جوڑا، آج اسے تفرقہ پھیلانے والے لوگ اسی کے ذریعہ پر ملک کو توڑنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں نے پہلے بھی ملک کے ساتھ دغا کیا اور آج بھی کر رہے ہیں۔
وندے ماترم کوئی دکھاوا نہیں ہے اور نہ ہی سیاست کا موضوع ہےکیونکہ جب ہم ان کی تقاریر میں ان کے خیالات اور نظریات سنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے وندے ماترم انہی کا بنایا ہوا ہے۔جنہوں نے آزادی کی تحریک میں حصہ ہی نہیں لیا وہ وندے ماترم کی اہمیت کیا جانیں؟
باقی: صفحہ۱۱؍ پر