۶؍اہم مطالبات کئے اور نعرے لگائے ۔ اسسٹنٹ لیبر کمشنر نے اپنے دفتر سے باہر آکر مظاہرین سے میمورنڈم قبول کیا
EPAPER
Updated: November 26, 2025, 11:13 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai
۶؍اہم مطالبات کئے اور نعرے لگائے ۔ اسسٹنٹ لیبر کمشنر نے اپنے دفتر سے باہر آکر مظاہرین سے میمورنڈم قبول کیا
۲۶؍نومبر یوم آئین کے موقع پر مرکزی حکومت کی غریب اور بالخصوص مزدور مخالف پالیسی پر لیبر کمشنر (باندرہ) کے دفتر کے باہرسی پی آئی، آل انڈیا ٹرین یونین(سیٹو) اور دیگر سماجی تنظیموں کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔ مزدوروں کو ان کے حقوق دینے اور مطالبات پورا کرنے کےلئے نعرے لگائے گئے نیز اسسٹنٹ لیبر کمشنر کو میمورنڈم دیا گیا۔ اسسٹنٹ لیبر کمشنر اشوک بہیر نے اپنے دفتر کے سامنے مظاہرین سے ملاقات کی اورمیمورنڈم قبول کی۔
مظاہرین بڑا بینر اورپلے کارڈزاٹھائے ہوئے تھے جن پران کے مطالبات اور مختلف نعرے لکھے ہوئے تھے۔ مظاہرین نے’ہم اپناحق مانگتے ،نہیں کسی سے بھیک مانگتے اور لڑیںگے جیتیں گے ‘کے نعرے بلند کئے۔اس موقع پرایک پمفلٹ بھی تقسیم کیا گیا ۔ اس میںدیگر مسائل کا بھی احاطہ کیا گیا تھا ۔
واضح ہوکہ مرکزی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ ۴؍ لیبر کوڈ سے مزدور ناراض ہیں اور وہ ختم کئے گئے ۴۴؍ قوانین کو اپنے لئے حکومت کی بڑی زیادتی قرار دے رہے ہیں۔ اسی سبب احتجاج کیا گیا ۔
’’مزدوروں کو ان کاحق دینا ہی ہوگا‘‘
مظاہرین کی قیادت کرنے والےآل انڈیا ٹریڈ یونین کے قومی سیکریٹری کامریڈ سوکمار داملے نے کہا کہ ’’یومِ آئین کے موقع پرہم لیبر کمشنر کویہ یاد دلانا چاہتے ہیںکہ مزدوروں کوان کا حق ملنا ہی چاہئے، مزدور ہی دیش کو اورممبئی کوچمکاتے ہیںمگر وہی نا انصافی کا شکار ہیں۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ’’ قانون کا مطلب مزدوروں کے ساتھ انصاف اوران کامطالبہ پورا کرنا ہے مگر حالات اس کے برعکس ہیں ۔‘‘
سی پی آئی لیڈر کامریڈ پرکاش ریڈی نے کہاکہ ’’مزدوربرسوں سے اپنے حق کےلئے آواز بلند کررہے ہیںمگر ان کو انصاف نہیںمل رہا ہے۔ مزدور اپنا حق مانگ رہے ہیں،کسی سےبھیک یا خیرات نہیں، انہیں ان کا حق دینے کے تئیں کیوں ٹال مٹول کیاجارہا ہے۔ اسی طرح۴؍نئےلیبرکوڈنافذکئے گئے مگر وہ بھی سابقہ قوانین کی جگہ نہیں لےسکے، اسی لئے مزدور پریشان ہیں اور اپنا حق مانگ رہے ہیں۔‘‘
کامگار یونین لیڈر کامریڈ ببلی راؤت نے کہاکہ ’’حکومت کا رویہ اورطریقۂ کارمزدور مخالف ہے ، اسی لئے مزدوروں کوسڑکوں پراترناپڑتا ہے، وہ بار بار اپنا حق مانگتے ہیں مگرہر بار وعدہ کرکے ٹال دیا جاتا ہے لیکن اب مزیدٹال مٹول کا رویہ ناقابل قبول ہے، حکومت کو مزدوروں کے مطالبات پورے کرنے ہی ہوں گے ۔‘‘
مورچے میںشامل دیگر قائدین میں سی پی آئی کے سینئر رکن کامریڈ نصیر الحق، بالا ساونت اور ڈیفنس ایمپلائز یونین کے اشوک کٹی وغیرہ شامل تھے۔انہوں نے بھی مزدوروں کے مطالبات جلد سے جلد پورا کئے جانے کی وکالت کی ۔
مزدوروں کے چند اہم مطالبات
(۱)۴؍لیبر کوڈز کو منسوخ کیا جائے(۲)ا سکیم ورکرز کو سرکاری ملازم کا درجہ دیا جائے (۳) فوری طور پر ڈومیسٹک ورکرز بورڈ تشکیل دیا جائے اور غیر منظم مزدوروں کے لئے تمام اسکیموں کو نافذ کیا جائے (۴) پرانی پنشن اسکیم کو نافذ کیا جائے(۵) مہاراشٹر اسپیشل پبلک سیکوریٹی ایکٹ کو منسوخ کیا جائے (۶)یو ایل سی ایکٹ کے تحت زائد اراضی پر مزدوروں کے لئے مکانات تعمیر کئے جائیں۔
’’آئین میںیکساں حقوق پھر تفریق کیوں ؟‘‘
اس موقع پرتقسیم کردہ پمفلٹ میںکہا گیا کہ آئین سب کیلئے یکساں سیاسی، سماجی اور اقتصادی مواقع فراہم کرتا ہے تو پھرکیوں ۵۰؍فیصد آبادی کے پاس محض ۳؍فیصد دولت ہےجبکہ ایک فیصد آبادی کے پاس ۲۵؍ فیصد دولت ہے اور مسلسل یہ خلا بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اسی طرح ۲۰۱۴ءسے قبل کسی نے اڈانی کے بارے میں سنا تھا؟ آج، وہ دنیا کا دوسرا امیر ترین آدمی ہے۔اسی طرح ممبئی میں رہائش گاہوں کی حالت دیکھئے کہ بلند و بالا عمارتوں کا جال پھیلایا جارہا ہے جبکہ ۶۰؍ فیصد آبادی گنجان بستیوں میں رہتی ہے اور وہ مختلف مسائل کاشکار ہے۔ اسی طرح خواتین کے مسائل ہیں تو پھر یہ اہم سوال ہے کہ اگرآئین میں یکساں مواقع دیئے گئے ہیں توپھر یہ تفریق کیوں ؟ اس تعلق سے بھی ہم سب کو اور خاص طور پر آئین میں یقین رکھنے والے، اس کے تحفظ کیلئے کوشاں رہنے والوں کو مزید سنگھرش کرنا ہوگا اوربتانا ہوگا کہ یہ ناقابل قبول ہے۔