• Tue, 09 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

نیپال میں نوجوان سڑکوں پر، پارلیمنٹ پر دھاوا، سرکار بے بس

Updated: September 08, 2025, 11:36 PM IST | Kathmandu

: نیپال میں گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے نے نوجوانوں  کے صبر کے پیمانہ کو لبریز کردیا

Police try to stop protesters outside Nepal`s parliament. (Photo: PTI)
نیپال کی پارلیمنٹ کے باہر پولیس مظاہرین کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

: نیپال میں گزشتہ دنوں سوشل  میڈیا پر  پابندی  عائد کرنے کے فیصلے نے نوجوانوں   کے صبر کے پیمانہ کو لبریز کردیا۔ پیر کو وہ سڑکوں پر اُتر آئے اورقومی راجدھانی کٹھمنڈو میں  پارلیمنٹ کے اندر گھس گئے۔  حالات پر قابو پانے کیلئے پولیس کو فائرنگ کرنی پڑی جس کے نتیجے میں  اس خبر کے لکھے جانے تک ۱۹؍ افراد ہلاک اور  ۳۰۰؍ سے زائد زخمی ہوگئے۔ نوجوانوں کے اس احتجاج کو جسے ’جین زی‘ کا احتجاج قرار دیا جارہاہے،  کے آگے حکومت بے بس ثابت ہوئی ہے ۔اسے  فوج کو طلب کرنا پڑا۔  ابتدائی رپورٹوں کے مطابق نیپال میں بادشاہت کی واپسی اور ہندو راشٹر کے قیام کے حامی بھی اس احتجاج کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ 
 اس بیچ کٹھمنڈو سمیت کئی علاقوں میں کرفیو نافذ کردیاگیاہے  اور وزیر داخلہ رمیش لال لیکھک نے مظاہرین کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دیدیا ہے۔اُدھر وزیراعظم اولی کی قیادت میں کابینہ کی میٹنگ میں  مظاہرین کے خلاف تشدد کی جانچ کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کافیصلہ کیاگیاہے۔   فوج نے قومی راجدھانی میں پارلیمنٹ تک جانےوالی تمام سڑکوں  پر مورچہ سنبھال لیا ہے۔  اس سے قبل ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں  نے جن میں  اسکول کے طلبہ بھی شامل تھے، ’جین -زی‘ (نئی نسل کیلئے استعمال ہونے والا انگریزی لفظ) کے بینر تلےاحتجاج کرتے ہوئے کٹھمنڈو میں پارلیمنٹ  پر دھاوا بول دیا۔  مظاہرین حکومت مخالف نعرے بلند کرتے ہوئے سوشل میڈیا پرعائد کی گئی پابندی فوراً ہٹانے کا مطالبہ کررہے تھے۔ ان میں سے چند جب پارلیمنٹ احاطہ میں داخل ہوگئے تو حالات بے قابو ہونے لگےاور پولیس نے فائرنگ کا سہارا لیا۔ پولیس کے ترجمان ونود گھیمیرے نے  بتایا کہ ۱۷؍ افراد کٹھمنڈو میں مختلف مقامات پر بھیڑ کے ٹکراؤ اور تشدد  میں مارے گئے جبکہ  ۲؍ مظاہرین کی موت سنسری ضلع میں پولیس فائرنگ میں ہوئی ہے۔  زخمیوں کی تعداد’نیپال نیوز‘ نے ۳۴۷؍ بتائی ہے جن میں سے کم از کم ۱۰۰؍افراد اسپتالوں  میں زیر علاج ہیں۔ان میں سے کئی کی حالت نازک ہے۔ 
 مظاہروں کے بعد نیپال میں سیاسی ہلچل تیز ہوگئی ہے۔ وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے اور اس میں نیپال کے وزیرداخلہ رمیش لیکھک نے اخلاقی بنیادوں پر  استعفیٰ پیش کردیا ہے۔ دوسری جانب طلبہ سڑکوں سے  ہٹنے کو تیار نہیں۔انہوںنے وزیر اعظم کے پی شرما اولی کی حکومت پر آزادیِ اظہارِ رائے کو دبانے اور عوامی خدشات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا ہے۔پولیس  کے ذریعہ مظاہرین کے خلاف تشدد نے حالات کو مزید دھماکہ خیز بنادیاہے تاہم  پولیس نے اپنی صفائی میں کہا ہے کہ اس نے اس وقت فائرنگ کی جب مظاہرین نے پارلیمنٹ کے مرکزی دروازے کو توڑ کر احاطے پر دھاوا بول دیا اور داخلی دروازے کو آگ لگا دی۔ کشیدگی بڑھنے کے بعد حکومت نے بنشور، لینچور اور دیگر حساس علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا کیونکہ ابتدائی طور پر ’’پرامن‘‘ احتجاج پرتشدد جھڑپوں میں تبدیل ہوگیا تھا۔
 الزام ہے کہ عوامی بے چینی میں  اضافہ کی وجہ سابق راجاگیانندر کا وہ  خطاب  ہے  جس  میں انہوں نے  اُن حلقوں کی  حوصلہ  افزائی کی جو بادشاہت کی بحالی اورہندو راشٹر کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بحران اس وقت بھڑکا جب حکومت نے۲۶؍ بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، بشمول فیس بک، انسٹاگرام، وہاٹس ایپ، ایکس، لنکڈ اِن اور سگنل پر پابندی عائد کر دی۔حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ کمپنیاں نیپال کے نئے سوشل میڈیا قوانین کے تحت رجسٹریشن کرانے میں ناکام رہیں۔

nepal Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK