EPAPER
Updated: June 16, 2023, 5:10 PM IST | Mumbai
محمد حبیب ایک ہندوستانی مورخ اور مجاہد آزادی تھے۔ان کی عملی زندگی کا زیادہ تر حصہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزرا۔ وہ ہندوستان کی تحریک آزادی میں گاندھی جی اور جواہر لعل نہرو کے ہم قدم تھے۔ محمد حبیب ۱۹۶۷ء میں نائب صدر جمہوریہ کے امید وار تھے۔
محمد حبیب ایک ہندوستانی مورخ اور مجاہد آزادی تھے۔ان کی عملی زندگی کا زیادہ تر حصہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزرا۔ وہ ہندوستان کی تحریک آزادی میں گاندھی جی اور جواہر لعل نہرو کے ہم قدم تھے۔ محمد حبیب ۱۹۶۷ء میں نائب صدر جمہوریہ کے امید وار تھے۔
محمد حبیب یکم نومبر۱۸۹۴ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے ۔حبیب لکھنؤ کے ایک بیرسٹر محمدنسیم کے بیٹے تھے۔ ان کی اہلیہ سہیلہ طیب جی، مہاتما گاندھی کے مشہور شاگرد عباس طیب جی کی بیٹی تھیں۔ محمد حبیب کے بیٹے کمال حبیب اور عرفان حبیب ہیں، جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں۔حبیب کی ابتدائی تعلیم محمڈن اینگلو اورینٹل اسکول اور کالج، علی گڑھ میں ہوئی تھی۔ ۱۹۱۶ء میں انہوں نے بی اے کا امتحان اول درجے سے کامیاب کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اعلیٰ تعلیم کیلئے آکسفورڈ کا رخ کیا جہاں ان کی تربیت مارگولیوتھ، اسپونر اور آرنسٹ بارکر وغیرہ جیسے روشن خیال اور تاریخی سوچ رکھنے والے اساتذہ کے زیر نگرانی ہوئی۔ محمد حبیب کے ذہن اور کردار سازی میں ان اساتذہ کرام نے اہم رول ادا کیا۔وہ کچھ عرصے کیلئے آکسفورڈ مجلس کے صدر بھی رہے تھے۔
آکسفورڈ کے دور ہی میں حبیب قومیت کے جذبے سے سرشار ہوئے۔ آزاد ذہنی معلم آرنسٹ بارکر، سروجنی نائیڈو سے ایک ملاقات اور مولانا محمد علی کی سرپرستی، جو ان کے انگلستان میں قیام کے دوران لندن آئے تھے، یہ عوامل تھے جنہوں نے ان کے افکار کو ایک سمت میں گامزن کیا۔
محمد حبیب محمد علی جوہر کی دعوت پر ہندوستان لوٹ آئے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے مگر غالباً وہ باضابطہ عملے کا حصہ نہیں بنے۔ تحریک عدم تعاون کے اختتام کے بعد ۱۹۲۲ء میں وہ ریڈر کے عہدے پر فائز ہوئے اور تقریباً اسی سے متصلہ دور میں وہ پروفیسر بنے۔ ۱۹۲۷ءاور ۱۹۳۰ء کے درمیان محمد حبیب نے عرب جنرل(محمد بن قاسم، محمود غزنوی، شہاب الدین غور ) پر اہم مقالے شائع کئے۔
علی گڑھ میں حبیب نے کئی طریقوں سےاپنی چھاپ چھوڑی۔ ایک ماہر تعلیم کے طور پر انہوں نے اصل مصادر پر مبنی تاریخ لکھنے پر زور دیتے رہے۔ وہ آلِ سلطانی اور سیاسی حکم رانی سے زیادہ تاریخ کو کئی اور زاویوں سے مطالعہ کرنے پر زور دیتے رہے۔ انہوں نے خود سماجی اور ثقافتی تاریخ پر لکھا تھا اور کافی عرق ریزی سے مسلمان صوفی کی تاریخ کو کھوج نکالا۔ ۱۹۵۲ء میں انہوں نے ایک قابل ذکر تحریر پیش کی جو ان ایلیٹ اور ڈاسن کی’ دی ہسٹری آف انڈیا، ایز ٹولڈ بائی ایٹز اون ہسٹورینس ‘کی جلد دوم کی دوسری چھپائی کا دیباچہ پیش کیا جو قرون وسطیٰ کے ہندوستان کا مارکسی خیالات سے متاثر تجزیہ تھا۔
حبیب ۱۹۵۸ءمیں وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔ تاہم، وہ اس کے فوری بعد پروفیسر ایمریٹس کے طور پر متعین ہوئے تھے۔وہ ۲۲؍ جون ۱۹۷۱ء کو مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے۔
(وکی پیڈیا )