Inquilab Logo Happiest Places to Work

عالمی کہانیوں کا ترجمہ: خود غرض دیو نُما

Updated: July 27, 2023, 5:14 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف آئرش ادیب آسکر وائلڈ کی شہرۂ آفاق کہانی ’’دی سیل فش جائنٹ‘‘ خود غرض دیو نُما کا اُردو ترجمہ

The Selfish Gian. Photo : INN
خود غرض دیو نُما۔ تصویر : آئی این این

ہر دوپہر، اسکول سے لوٹنے کے بعد بچے اُس دیو نما شخص کے باغ میں کھیلتے تھے۔ یہ بڑا اور خوبصورت باغ تھا جس میں ہر طرف نرم سبز گھاس اُگی ہوئی تھی۔ گھاس پر ستاروں کی طرح رنگ برنگے پھول سجے تھے۔ باغ میں آڑو کے بارہ درخت تھے جن پر موسم بہار میں موتی کی طرح نازک گلابی پھول کھلتے تھے جبکہ خزاں میں رسیلے پھل لد جاتے تھے۔ باغ میں پرندے اتنے میٹھے اور پیارے گیت گاتے تھے کہ بچے اپنا کھیل روک کر انہیں ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگتے تھے۔’’ہم اس باغ میں کتنی خوشی محسوس کرتے ہیں!‘‘ وہ آپس میںکہتے تھے۔ 
 پھر ایک دن وہ دیو نما شخص لوٹ آیا۔ وہ اپنے کسی دوست سے ملنے گیا تھا اور اس کے ساتھ سات سال تک رہا تھا۔ جب وہ اپنے محل کے پاس پہنچا اور بچوں کوباغ میں کھیلتا دیکھا تو زور سے دھاڑا ’’تم لوگ یہاں کررہے ہو؟‘‘ اور تمام بچے خوفزدہ ہوکر بھاگ گئے۔ ’’ یہ میری ملکیت ہے اور یہاں کھیلنے کی آزادی صرف مجھے ہے۔ ‘‘ چنانچہ اس نے اپنے باغ کی چاروں طرف بلند دیوار تعمیر کروا دی اور ایک نوٹس بورڈ لگا دیا جس پر درج تھا: 
 ’’اس باغ میں زبردستی داخل ہونے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ‘‘
 وہ بڑا خود غرض دیو نما انسان تھا۔
 بچوں کے پاس اب کھیلنے کیلئے کوئی جگہ نہیں رہ گئی تھی۔ جب اسکول کی چھٹی ہوجاتی تو وہ بلند دیوار کے گرد چکر لگاتے اور باغ کے بارے میں باتیں کرتے۔ 
 پھر بہار آئی۔ پورے ملک میں رنگ برنگے پھول کھل گئے اور چھوٹے چھوٹے پرندے چہچہانے لگے۔ لیکن خودغرض دیو کا باغ اب بھی سرد تھا۔ پرندوں نے اس باغ میں اپنا آشیانہ بنانے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے اس باغ کے درختوں پر بیٹھ کر میٹھے نغمے گنگنانے کی پروا نہیں کی کیونکہ یہاں بچے نہیں تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ باغ کے درخت بھی اپنی شاخوں پر خوشنما رنگوں کے پھول اُگانے کا طریقہ بھول چکے ہیں۔ ایک بار ایک خوبصورت پھول نے اپنا سر گھاس سے نکالا مگر ’’نوٹس بورڈ‘‘ دیکھ کر افسردہ ہوگیا اور دوبارہ سوگیا۔ اس باغ کا ذرہ ذرہ غمگین تھا۔ خوش تھے تو صرف برف اور ٹھنڈی۔ وہ خوشی سے کہہ اٹھے، ’’اَب ہم پورا سال یہیں رہیں گے۔ ‘‘ برف نے اپنی بڑی سفید چادر سے گھاس کو ڈھانپ دیا اور جمنے والی برف نے درختوں پر چاندی چڑھا دی ۔ پھر ان دونوں نے شمال سے آنے والی سرد ہواؤں کو اپنے ساتھ اس باغ میں رہنے کی دعوت دی، اور اس نے بھی دیونما شخص کے باغ میں سکونت اختیار کرلی۔ سرد ہوائیں باغ میں دھاڑتی ہوئی یہاں سے وہاں اڑتی رہتیں۔ اس نے چمنی کو بھی ڈھانپ دیا تھا۔ ’’یہ بہترین جگہ ہے۔‘‘  برف، ٹھنڈ اور سرد ہواؤں نے کہا۔ ’’ہمیں برف باری کو بھی دعوت دینی چاہئے۔ ‘‘ پھر اولے بھی آگئے۔ ہر روز تین گھنٹے تک محل کی چھت پر اولے برستے رہتے حتیٰ کہ چھت کئی جگہوں سے ٹوٹ گئی۔ برف باری باغ میں گھومتی رہتی اور برف کے سخت پتھر برساتی رہتی۔ پھر ایک وقت آیا کہ پورا باغ اولوں سے ڈھک گیا۔

یہ بھی پڑھئے: خوش وخرم شہزادہ (آسکر وائلڈ)

’’مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ بہار اب تک کیوں نہیں آئی!‘‘ خود غرض دیو نے خود سے سوال کیا۔ وہ کھڑکی کے پاس بیٹھا اپنے سرد سفید باغ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ’’مجھے امید ہے کہ بہار جلد آئے گی۔ ‘‘ لیکن بہار آئی نہ گرمی۔ خزاں نے ملک کے باغات کو سنہری رنگ میں لپیٹ دیا۔ درخت رسیلے پھلوں سے لد گئے لیکن خود غرض دیو کا باغ سنہری درختوں کے درمیان سفید ہی نظر آتا رہا۔ ’’وہ بہت خود غرض ہے۔ ‘‘ خزاں نے کہا۔ 
 اس کے باغ میں ہمیشہ سردیوں کا موسم تھا۔ وہاں شمالی ہوا، اولے، ٹھنڈ اور برف نے رہائش اختیار کرلی تھی۔ ایک صبح دیو نما انسان بستر پر لیٹا کسی خیال میں ڈوبا ہوا تھا کہ اسے ہلکی مگر خوبصورت موسیقی سنائی دی۔ یہ آواز اس کے کانوں کو اتنی بھلی لگ رہی تھی کہ اس نے سوچا کہ شاید بادشاہ کے موسیقار وہاں سے گزر رہے ہیں لیکن اس کی کھڑکی کے باہر ایک صفورا (چڑیا کی نسل کا ایک خوبصورت پرندہ) گا رہا تھا۔ اس نے اپنے باغ میں کسی پرندے کو گاتے ہوئے نہیں سنا تھا لہٰذا اسے لگا کہ وہ دنیا کی سب سے خوبصورت موسیقی سن رہا ہے لیکن پھر اولے پڑنے لگے اور موسیقی کی آواز کہیں دب سی گئی۔ پھر شمالی ہواؤںنے چنگھاڑنا بند کر دیا اور روشندان سے ایک مزیدار خوشبو آئی۔ ’’مجھے یقین ہے کہ بہار آ گئی ہے۔ ‘‘ دیو نے کہا، اور چھلانگ لگا کر بستر سے نکل آیا اور باہر دیکھا۔ مگر اس نے کیا دیکھا؟
 اس نے ایک انتہائی شاندار منظر دیکھا۔ بلند دیوار کے ایک چھوٹے سے سوراخ سے بچے اندر گھس آئے تھے اور وہ درختوں کی شاخوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اسے ہر درخت پر ایک بچہ نظر آرہا تھا۔ درخت اتنے خوش تھے کہ انہوں نے اپنے آپ کو پھولوں سے ڈھانپ لیا تھا اور بچوں کے سروں پر آہستہ آہستہ اپنے بازو لہرا رہے تھے۔ پرندے اِدھر اُدھر اُڑ رہے تھے۔ سبز گھاس پر رنگ برنگے پھول کھلے ہوئے تھے جو خوب ہنس رہے تھے۔ یہ ایک دلکش منظر تھا لیکن ایک کونے میں اب بھی سردی تھی۔ یہ باغ کا ایسا کونہ تھا جہاں پہنچنے میں کافی وقت لگتا تھا۔ اس کونے میں ایک چھوٹا سا لڑکا کھڑا تھا۔ وہ اتنا چھوٹا تھا کہ درخت کی شاخوں تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ وہ درخت کے چاروں طرف گھوم رہا تھا۔ بلک بلک کر رو رہا تھا کیونکہ اسے درخت پر چڑھنا تھا۔ اس درخت پر اب بھی ٹھنڈ اور برف کی حکومت تھی۔ اس کے اوپر شمالی ہوا چنگھاڑ رہی تھی۔ ’’اوپر چڑھو! لڑکے۔ ‘‘ درخت نے کہا، اور اس نے اپنی شاخوں کو جتنا ممکن تھا نیچے جھکا دیا مگر لڑکا بہت چھوٹا تھا۔ وہ اس پر چڑھنے سے قاصر تھا۔
 یہ منظر دیکھ کر خود غرض دیو کا دل پگھل گیا۔ ’’میں کتنا خود غرض ہوگیا ہوں!‘‘ اس نے کہا: ’’مجھے اب سمجھ میں آیا ہے کہ یہاں بہار کیوں نہیں آتی۔ میں اس چھوٹے بچے کو اٹھا کر درخت کی سب سے اوپری شاخ پر بٹھا دوں گااور دیوار گرا دوں گا۔ پھر میرا باغ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بچوں کے کھیل کا میدان بن جائے گا۔ مَیں اسے بچوں کیلئے ہمیشہ کیلئے کھول دوں گا۔ ‘‘ وہ واقعی اپنی حرکتوں پر پشیمان تھا۔ چنانچہ وہ نیچے اترا۔ آہستگی سے سامنے کا دروازہ کھولا اور باغ میں چلا گیا۔ جب بچوں نے اسے دیکھا تو خوفزدہ ہوکر بھاگ گئے اور باغ نے پھر سے سردی کی چادر اوڑھ لی۔ لیکن باغ کے کونے میں کھڑا چھوٹا لڑکا نہیں بھاگا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں اور اس نے دیو نما انسان کو آتے نہیں دیکھا تھا۔ دیو خاموشی سے اس کے پیچھے گیا اور اسے آہستگی سے اٹھا لیا۔ پھر اسے درخت کی سب سے اوپری شاخ پر بٹھا دیا۔ اچانک درخت سے ٹھنڈ، برف، شمالی ہوائیں، اولے سبھی غائب ہوگئے۔ پتے اچانک سبز ہوگئے اور خوشنما پھول کھل اٹھے۔ پرندوں کا جھرمٹ آگیا اور اپنی میٹھی آواز میں گنگنانے لگا۔ چھوٹے لڑکے نے اپنے بازو پھیلائے اور دیو کو گلے سے لگاتے ہوئے محبت سے اس کی پیشانی چوم لی۔ جب دوسرے بچوں نے دیکھا کہ دیونما انسان اب خودغرض نہیں رہ گیا ہے تو دوڑتے ہوئے باغ میں واپس آگئے اور ان کے ساتھ بہار بھی لوٹ آئی۔
 ’’بچو! اب یہ تمہارا باغ ہے۔ ‘‘ دیو نے کہا۔ اس نے ایک بڑی کلہاڑی اٹھائی اور بلند دیواروں کو گرا دیا۔ اور جب لوگ دوپہر بارہ بجے بازار جا رہے تھے تو انہوں نے دیو کو بچوں کے ساتھ دنیا کے سب سے خوبصورت باغ میں کھیلتے ہوئے پایا۔ یہ منظر انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ دن بھر کھیلتے رہے اور شام کو دیو کو الوداع کہنے آئے۔ ’’تمہارا چھوٹا ساتھی کہاں ہے؟‘‘ دیو نے پوچھا: ’’وہ لڑکا جسے میں نے اٹھا کر درخت پر بٹھایا تھا۔ ‘‘ دیو کو اس سے سب سے زیادہ محبت تھی کیونکہ اس لڑکے نے دیو کی پیشانی چومی تھی۔
 ’’ہم نہیں جانتے۔ ‘‘ بچوں نے جواب دیا۔

یہ بھی پڑھئے: ماڈل کروڑ پتی (آسکر وائلڈ)

’’تم اس سے کہنا کہ وہ جب چاہے یہاں آسکتا ہے۔ ‘‘ دیو نے کہا۔ لیکن بچوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ چھوٹا لڑکا کہاں رہتا ہے، اور نہ ہی انہوں نے اسے پہلے کبھی دیکھا ہے۔ یہ سن کر دیو کافی اداس ہوگیا۔
 ہر دوپہر، اسکول ختم ہونے پر بچے آتے اور دیو کے ساتھ کھیلتے مگر وہ چھوٹا لڑکا جس سے دیو کو سب سے زیادہ محبت تھی، کبھی نہیں آیا اور کسی نے کبھی اسے دیکھا نہیں۔ دیو تمام بچوں کے ساتھ مہربان تھا لیکن اسے چھوٹے لڑکے سے ملنے کی تمنا تھی۔ وہ اکثر سوچتا کہ نہ جانے چھوٹا لڑکا کہاں ہوگا، کیا کررہا ہوگا۔ سال گزر گئے، اور دیو نما انسان بہت بوڑھا اور کمزور ہو گیا۔ اس میں اب کھیلنے کی بھی سکت نہیں رہ گئی تھی۔ وہ ایک بڑی کرسی پر بیٹھ جاتا اور بچوں کو کھیلتا ہوا دیکھتا رہتا۔ ’’میرے باغ میں ڈھیروں حسین پھول ہیں۔ ‘‘ دیو نے کہا۔ ’’مگر بچے دنیا کے خوبصورت ترین پھول ہیں۔ ‘‘
 سردیوں کی ایک صبح وہ کپڑے پہنتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اسے اب سردیوں سے نفرت نہیں تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ بس بہار کچھ مہینوں کیلئے سوگئی ہے اور پھول آرام کر رہے ہیں۔ اچانک اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اس نے اپنی آنکھوں کو رگڑا اور دیکھا۔ یہ ایک شاندار نظارہ تھا۔ باغ کے سب سے دور والے کونے میں ایک درخت خوبصورت سفید پھولوں سے لدا ہوا تھا۔ اس کی تمام شاخیں سنہری تھیں اور ان پر چاندی کے پھل لٹک رہے تھے، اور اس کے نیچے وہی چھوٹا لڑکا کھڑا تھا جس کی تلاش دیو کو برسوں سے تھی۔
 وہ خوشی خوشی نیچے کی طرف بھاگا۔ وہ باغ میں آیا اور اس دور افتادہ کونے کی طرف دوڑنے لگا۔ بچے کے قریب آتے ہی دیو کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ ’’تمہیں زخمی کرنے کی جرأت کس نے کی؟‘‘ دیو نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ بچے کے ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر دو کیلوں کے نشان تھے۔ ویسے ہی نشان اس کے پاؤں پر بھی تھے۔
 ’’مجھے بتاؤ۔ مَیں اس شخص کو معاف نہیں کروں گا۔ ‘‘
’’نہیں! اس کی ضرورت نہیں۔‘‘ بچے نے نرمی سے جواب دیا؛’’یہ محبت کے زخم ہیں۔ ‘‘’’تم کون ہو؟‘‘ دیو نے الجھتے ہوئے پوچھا۔ اس پر ایک عجیب سا خوف طاری ہو گیا تھا، اور وہ اس چھوٹے سے بچے کے سامنے اچانک جھک گیا۔بچہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا، ’’تم نے ایک مرتبہ مجھے اپنے باغ میں کھیلنے کی اجازت دی تھی۔ آج تم میرے ساتھ میرے باغ میں آؤ، جو کسی جنت سے کم نہیں ہے۔ ‘‘
 اسکول کی چھٹی ہونے کے بعد جب بچے اچھلتے کودتے دیو نما شخص کے باغ میں پہنچے تو انہوں نے باغ کے سب سے دور افتادہ کونے میں ایستادہ درخت کے نیچے اسے مردہ پایا۔ کڑاکے کی سردی میں جب درختوں پر سبز پتہ تک نہیں تھا، سرد ہوائیں چنگھاڑ رہی تھیں، دیو نما شخص کا مردہ جسم سفید پھولوں سے ڈھکا ہوا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK