EPAPER
Updated: November 25, 2024, 9:34 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
آئرلینڈ کے مشہور مصنف آسکر وائلڈ کی شاہکار مختصر کہانیThe Model Millionaire کا اُردو ترجمہ
دولت کے بغیر خوبصورتی بے معنی ہے۔ محبت امیروں کی جاگیر ہے، بے روزگاروں کا پیشہ نہیں۔ غریبوں کو ہر وقت عملی زندگی کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ زندگی جینے کیلئے مستقل آمدنی ضروری ہے۔ یہ جدید زندگی کی ایسی عظیم سچائیاں ہیں جن کا اِدراک ہیوگی ایرسکائن کو کافی دیر میں ہوا۔ بے چارا ہیوگی! اس نے اپنی زندگی میں شاید ہی کبھی کوئی اچھی یا بہت بری بات کہی ہو۔ لیکن وہ ایک شاندار شخصیت کا مالک تھا۔ اس کے خوبصورت چاکلیٹی بال، تیکھے نقوش اور سرمئی آنکھیں، اسے بھیڑ میں منفرد بناتی تھیں۔ وہ لوگوں میں کافی مقبول تھا۔ اس کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کے علاوہ ہر کام تھا۔ اس کے والد نے وصیت میں اس کیلئے ایک تلوار اور ۱۵؍ جلدوں پر مشتمل ’’جزیرہ نما جنگ کی تاریخ‘‘ کتاب کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا تھا۔
اس نے مختلف پیشوں میں طبع آزمائی کی لیکن کامیابی کسی میں نہیں ملی ۔ ایک مہربان معمر خاتون نے اسے اپنے ۲۰۰؍ سالہ پرانے مکان میں رہنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ وہ اسٹاک ایکسچینج میں ۶؍ ماہ تک کام کرتا رہا لیکن ’’بُل‘‘ اور ’’بیئر‘‘ کے درمیان ایک ’’خوبصورت تتلی‘‘ کا کیا کام۔ پھر کچھ دنوں تک چائے کا کاروبار کیا لیکن جلد ہی اکتاگیا۔ اس نے دو تین کام اور کئے لیکن کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ بالآخر وہ ایک خوبصورت نوجوان کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ وہ لارا میرٹن نامی لڑکی کو پسند کرتا تھا جس کے والد ایک ریٹائرڈ کرنل تھے۔ لارا بھی اسے پسند کرتی تھی۔ دونوں لندن میں کافی مشہور تھے۔کرنل، ہیوگی کو بہت پسند کرتا تھا لیکن اپنی بیٹی کی شادی کسی بےروزگار سے نہیں کرنا چاہتا تھا۔
وہ کہتا تھا’’لڑکے! جب تمہارے پاس تمہارے اپنے ۱۰؍ ہزار پاؤنڈ ہوں گے، تب میں تمہارے بارے میں سوچوں گا۔‘‘
ہیوگی ان دنوں بہت اداس تھا۔
ایک صبح وہ ہالینڈ پارک لارا سے ملنے جارہا تھا۔ راستے میں اس کے سب سے اچھے دوست ایلن ٹریور کا گھر پڑتا تھا، وہ اس سے ملنے چلا گیا۔ٹریور ایک مصور تھا۔ درحقیقت، لوگ ایلن سے ملنے سے کتراتے تھے۔ اسے سرپھرا اور بددماغ مصور کہتے تھے۔ لیکن وہ ایک اچھا فنکار تھا۔ ایسے فنکار کم ہی ہوتے ہیں۔ ذاتی طور پر وہ ایک عجیب شخص تھا۔ ہر وقت چہرے پر جھنجھلاہٹ ہوتی۔ سرخ خنجر نما ڈاڑھی اس مزید خشک مزاج بناتی تھی۔ لیکن جب وہ برش اٹھاتا تو لوگ اس کی تصویریں دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے۔ وہ ہیوگی کو کافی پسند کرتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہیوگی کی خوبصورتی سے کافی متاثر تھا۔ تاہم، ہیوگی کو بہتر طور پر جاننے کے بعد اسے ہیوگی کی فیاضی اور لاپروا فطرت بھاگئی اور اس نے ہیوگی کیلئے اپنے اسٹوڈیو کے دروازے کھول دیئے۔
جب ہیوگی اندر آیا تو اسے ٹریور، ایک بھکاری کے بڑے سے پورٹریٹ کو فائنل ٹچ دیتا نظر آیا۔ بھکاری اسٹوڈیو کے کونے میں بنے ایک اونچے چبوترے پر کھڑا تھا۔ وہ ایک بوڑھا آدمی تھا جس کا چہرہ جھریوں سے بھرا تھا اور اس کی حالت قابل رحم تھی۔ اس کے کندھوں پر ایک موٹے بھورے رنگ کی پھٹی پرانی چادر لٹکی ہوئی تھی اور آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس کے موٹے جوتوں کی کئی مرتبہ مرمت کی گئی تھی، اور وہ ایک ہاتھ سے کھردری چھڑی پر ٹیک لگائے کھڑا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ میں اس نے اپنی پھٹی ہوئی ٹوپی بھیک کیلئےاٹھا رکھی تھی۔
’’کیا شاندار ماڈل ہے!‘‘ ہیوگی نے اپنے دوست سے مصافحہ کرتے ہوئے سرگوشی میں کہا۔ ’’ایک شاندار ماڈل؟‘‘ وہ پوری قوت سے چیخا۔ ’’ایسے بھکاری روز روز نہیں ملتے۔‘‘
’’بے چارہ بوڑھا!‘‘ ہیوگی نے کہا، ’’وہ کتنا غمگین نظر آتا ہے ! لیکن مجھے لگتا ہے کہ تم مصوروں کے نزدیک اس کا غمگین چہرہ اس کی خوش قسمتی ہے؟‘‘ ’’ `یقینی طور پر،‘‘ ٹریور نے جواب دیا، ’’تم نہیں چاہتے کہ کوئی بھکاری خوش نظر آئے، ہے نا؟‘‘
’’ایک ماڈل کو بیٹھنے کے کتنے پاؤنڈ ملتے ہیں؟‘‘ ہیوگی نے ایک آرام دہ نشست پر بیٹھتے ہوئے سوال کیا۔ ’’ایک گھنٹے کا ایک شلنگ(قدیم برطانوی سکہ)۔‘‘
’’اور تمہیں اپنی تصویر کیلئے کتنے پاؤنڈ ملتے ہیں، ایلن؟‘‘
’’اوہ، اس کیلئےمجھے دو ہزار ملتے ہیں!‘‘
’’پاؤنڈ؟‘‘ ’’گینیز(قدیم برطانیہ کا سونے کا ایک سکہ) مصوروں، شاعروں اور طبیبوں کو ہمیشہ گنی ملتا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، مجھے لگتا ہے کہ پینٹنگ کی قیمت فروخت میں سے ماڈل کو فیصد میں اجرت ملنا چاہئے۔‘‘ ہیوگی نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’وہ اتنی ہی محنت کرتے ہیں جتنی تم مصور کرتے ہو۔‘‘
’’بکواس، بکواس! ایک پینٹر ایک ہی کینوس پر گھنٹوں کھڑے رہ کر رنگ بھرتا ہے، تصویر بناتا ہے، اپنے تخیل کو آزماتا ہے اور ماڈل صرف ایک جگہ کھڑا یا بیٹھا رہتا ہے۔ اب تم زیادہ باتیں مت کرو۔‘‘
کچھ دیر بعد ایک نوکر آیا، اور ٹریور کو بتایا کہ فریم بنانے والا آیاہے۔’’بھاگنا مت، ہیوگی۔‘‘ اس نے باہر جاتے ہوئے کہا، `’’میں چند لمحوں میں آجا ؤں گا۔‘‘
بوڑھا بھکاری ٹریور کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پیچھے لکڑی کے بنچ پر ایک لمحے کیلئے بیٹھ گیا۔ وہ اتنا اداس نظر آرہا تھا کہ ہیوگی کواس پر ترس آگیا۔ وہ اپنی جیبوں کو ٹٹولنے لگاجن میں چند ایک ہی سکے تھے۔
’’بے چارہ ہ بوڑھا، ان سکوں کی اسے زیادہ ضرورت ہے۔ لیکن پھر مجھے پندرہ دن بغیر پیسوں کے نکالنے پڑیں گے۔‘‘ لیکن ہیوگی وہ سکے بھکاری کے ہاتھوں میں دے کر اسٹوڈیو سے نکلنے کیلئے پر تولنے لگا۔
بوڑھے کے مرجھائے ہوئے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ ’’شکریہ جناب!‘‘ اس نے کہا۔’’بہت شکریہ!‘‘
اتنی دیر میں ٹریور آگیا، اور ہیوگی اپنے کئے پر تھوڑا شرماتے ہوئے رخصت ہوگیا۔ پھر اس نے کچھ وقت لارا کے ساتھ گزارا۔
رات گیارہ بجے کے قریب ہیوگی پیلٹ کلب میں ٹہلتا نظر آیا جہاں اسے ٹریور اکیلا بیٹھا نظر آیا۔ ’’ایلن! کیا تم نے تصویر مکمل کر لی؟‘‘ اس نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ختم بھی کرلی اور فریم بھی کروالی۔‘‘ ٹریور نے جواب دیا۔ ’’اور وہ بوڑھا تم سے کافی متاثر تھا۔ مجھے اسے تمہارے بارے میں سب کچھ بتانا پڑا کہ تم کون ہو، کہاں رہتے ہو، تمہاری آمدنی کیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔‘‘
’’ڈیئر ایلن،‘‘ ہیوگی نے کہا ’’جب میں گھر جاؤں تو شاید وہ میرا انتظار کررہا ہو۔ لیکن یقیناً تم مذاق کر رہے ہو۔ بے چارہ بوڑھا! کاش میں اس کیلئےکچھ کر سکتا۔ میرے لئے یہ خیال ہی خوفزدہ کردینے والا ہے کہ کوئی اتنا غمگین ہو۔ میرے پاس گھر میں پرانے کپڑوں کا ڈھیر ہے۔ کیا تمہیں لگتا ہے کہ وہ کپڑے اس کے کام آئیں گے؟کیونکہ اس کے جسم پر صرف چیتھڑے ہی تھے۔‘‘
’’لیکن وہ ان میں شاندار لگ رہا ہے،‘‘ ٹریور نے کہا۔ ’’میں اسے شاندار کپڑوں میں کبھی پینٹ نہیں کروں گا۔ جسے تم چیتھڑے کہتے ہو انہیں میں محبت کہتا ہوں۔ جو تمہیں غربت لگتی ہے، وہ میرے لئے حسین ہے۔ تاہم، میں اسے تمہاری پیشکش کے بارے میں ضرور بتاؤں گا۔‘‘
’’ایلن،‘‘ ہیوگی نے سنجیدگی سے کہا، ’’تم مصور لوگ بے دل اور بے رحم ہوتے ہو۔‘‘
’’ایک فنکار کا دل اس کا دماغ ہوتا ہے۔‘‘ ٹریور نے جواب دیا۔ ’’اور اس کے علاوہ، ہمارا کام دنیا کو اس طرح محسوس کرنا ہے جیسے ہم اسے دیکھتے ہیں۔ ہمیں اس کی اصلاح نہیں کرنا ہے جیسا کہ ہم اسے جانتے ہیں۔ اور بتاؤ لارا کیسی ہے؟ بوڑھا اس کے بارے میں بھی پوچھ رہا تھا۔‘‘
’’یعنی تم نے لاراکے بارے میں بھی بوڑھے سے بات کی؟‘‘ ہیوگی نے کہا۔
یہ بھی پڑھئے: خوش وخرم شہزادہ (آسکر وائلڈ)
’’ یقینی طور پر۔ اب وہ بوڑھا بھکاری، بے لگام کرنل، خوبصورت لارا اور ۱۰؍ ہزار پاؤنڈ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔‘‘
’’تم نے اسے میرے تمام نجی معاملات بتا دیئے؟‘‘ ہیوگی غصے سے سرخ ہوگیا۔
’’ڈیئر، بوائے! `وہ بوڑھا بھکاری یورپ کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک ہے۔ وہ اپنے اکاؤنٹ کو ہاتھ لگائے بغیر پورا لندن خرید سکتا ہے۔ دنیا کے ہر دارالحکومت میں اس کا گھر ہے، وہ سونے کی پلیٹ میں کھانا کھاتا ہے، اور جب چاہے روس کو جنگ میں شامل ہونے سے روک سکتا ہے۔‘‘
’’مطلب ؟‘‘ ہیوگی نے کہا۔
’’جس بوڑھے شخص کو تم نے آج اسٹوڈیو میں دیکھا وہ بیرن ہاسبرگ تھا۔ وہ میرا بہت اچھا دوست ہے اور وہ میری بنائی ہوئی تمام تصاویر اور ایسی ہی دیگر چیزیں خریدتا ہے۔ ایک ماہ قبل اس نے مجھے کہا تھا کہ میں اسے ایک بھکاری کے طور پر پینٹ کروں۔ اور مَیں بتادوں کہ اس نے چیتھڑوں میں ایک بھکاری کے طور پر اپنی شاندار شخصیت بنائی۔ جو سوٹ اس نے پہنا تھا، وہ بہت ہی پرانا تھا، اور میں نے ہی اسے اسپین سے خریداتھا۔ ‘‘
’’بیرن ہاسبرگ!‘‘ ہیوگی صدمے میں تھا۔ ’’میرے خدا! میں نے اسے ایک بھکاری سمجھ کر چند سکے دے دیئے۔ وہ مایوسی کے عالم میں ایسے بیٹھا تھا جیسے اس کا سب کچھ لٹ گیا ہو۔ ’’تم نے اسے سکے دیئے!‘‘ ٹریور نے زورد دار قہقہہ لگایا۔ ’’ڈیئر بوائے! تم اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھ سکو گے۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ تمہیں مجھے اس کے بارے میں بتانا چاہئے تھا، ایلن۔ اس طرح اس کے سامنے میرا ایسا مذاق نہیں بنتا۔‘‘ ہیوگی نے بے وقوفانہ انداز میں کہا۔
’’ٹھیک ہے، ہیوگی! لیکن میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ تم اس طرح خیرات دینے لگو گے۔ میں تمہیں ایک خوبصورت ماڈل سمجھ سکتا ہوں، لیکن یہ کبھی نہیں سوچ سکتا کہ تم میرے اسٹوڈیو میں بیٹھے ایک بھکاری کو چند سکے دے دوگے۔ اس کے علاوہ، جب تم اندر آئے تو مجھے لگا کہ ہاسبرگ کو پسند نہیں آئے گا کہ میں کسی کو اس کا نام بتاؤں۔ تم جانتے ہو، وہ اس وقت بھکاری بن کر کھڑا تھا۔‘‘
’’وہ سوچتا ہوگا کہ میں کتنا بے وقوف ہوں!‘‘ ہیوگی نے کہا۔
’’بالکل نہیں! تمہارے جانے کے بعد وہ کافی خوش نظر آیا۔ اکیلا ہی کافی دیر تک ہنستا رہا اور اپنے جھریوں والے ہاتھوں کو آپس میں رگڑتا رہا۔ میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ تمہارے بارے میں سب کچھ جاننے میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہا ہے۔ لیکن اب مجھے سب سمجھ میں آرہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ تمہارے چند سکوں کے بدلے وہ ہر ماہ تمہیں وہ سکے بھی لوٹائے گا اور اس پر سود بھی۔ واہ! یہ ایک اچھی کہانی بن گئی ہے۔‘‘
’’میں احمق ہوں ۔‘‘ہیوگی نے کہا۔ `’’میں جارہا ہوں۔ لیکن ڈیئر ایلن! تم یہ بات کسی کو نہیں بتانا ورنہ میں معاشرے میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ جاؤں گا۔‘‘
’’بکواس! تمہاری اس حرکت سے تمہارا انسان دوست جذبہ سامنے آیا ہے، رُکو، بھاگو مت۔ ‘‘تاہم، ہیوگی نہیں رُکا۔ گھر چلا گیا۔ وہ کافی ناخوش تھا مگر ایلن ٹریور قہقہے لگارہا تھا۔
اگلی صبح، جب ہیوگی ناشتہ کر رہا تھا تو نوکر اس کیلئے ایک کارڈ لایا جس پر بیرن ہاسبرگ درج تھا۔ ’’مجھے لگتا ہے کہ وہ مجھ سے معافی منگوانے آیا ہے۔‘‘ ہیوگی نے اپنے آپ سے کہا۔ اور اس نے نوکر سے کہا کہ انہیں اوپر لے آؤ۔ سونے کی عینک اور سرمئی بالوں والا ایک شریف معمر شخص کمرے میں آیا۔مگر وہ کوئی اور تھا۔ اس نے ہلکے فرانسیسی لہجے میں کہا’’کیا مجھے مسٹر ایرسکائن سے مخاطب ہونے کا شرف حاصل ہورہا ہے؟‘‘ہیوگی نے سر خم کیا۔’’میں بیرن ہاسبرگ کی جانب سے آیا ہوں،‘‘ اس شخص نے کہا۔ ’’دی بیرن...‘‘ ’’جناب! آپ اپنے مالک کو میری مخلصانہ معذرت پیش کریں۔‘‘ ہیوگی نے ہکلاتے ہوئے اس کی بات کاٹی۔ آدمی نے مسکراتے ہوئے کہا’’مجھے آپ کو یہ خط دینے کیلئے کہا گیا ہے۔‘‘ اور اس نے ایک مہر بند لفافہ بڑھایا جس پر لکھا تھا ’’ایک بوڑھے بھکاری کی طرف سے ہیوگی ایرسکائن اور لارا میرٹن کو شادی کا تحفہ!‘‘ لفافے کے اندر ۱۰؍ ہزار پاؤنڈ کا چیک تھا۔
جب ان کی شادی ہوئی تو ایلن خوشی سے پاگل ہورہا تھا۔ شادی میں بیرن ہاسبرگ بھی شامل تھا جس نے ایک چھوٹی سی تقریر بھی کی۔ایلن نے کہا ’’کروڑپتی ماڈلز نایاب ہیں۔ لیکن ماڈل کروڑپتی کمیاب ہیں!‘‘
ایلن وہ فنکار تھا جس نے ایک کروڑ پتی کو ماڈل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایک بھکاری کی تصویر بنائی تھی۔ اس نے ہیوگی کو بتایا تھا کہ ماڈلز کو پوز دینے کیلئے ’’ایک شلنگ فی گھنٹہ‘‘ دیا جاتا ہے۔ یہ ایک کروڑ پتی کیلئے منافع بخش سودا نہیں ہے۔ اس لئے کسی ماڈل کا کروڑ پتی ہونا نایاب ہوسکتا ہے لیکن ایک کروڑ پتی کا ایک شلنگ فی گھنٹہ کمانے کیلئے تصویر بنوانے کی زحمت کرنا کمیاب ہے۔