Inquilab Logo Happiest Places to Work

ارادۂ الٰہی کے بغیر کوئی شے اپنے مدار سے سر ِمو‘ انحراف نہیں کرسکتی!

Updated: May 16, 2025, 3:11 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai

حدیث کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دعا تقدیر کا رخ موڑ سکتی ہے۔ تقدیر لکھ دی گئی، مگر اس میں ’’اختیار‘‘ کی روشنائی سے انسانی تگ و دو کے آثار بھی رقم کئے گئے تاکہ روزِ جزا کوئی لب شکایت نہ کھول سکے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

تاریخِ انسانی میں بعض واقعات ایسے بھی رقم ہوتے ہیں جو محض ایک حادثہ یا فیصلہ نہیں ہوتے، بلکہ وہ عقل و بصیرت، تدبیر و توکل اور تقدیر و اختیار کے باہمی ربط کو اس شان سے واضح کرتے ہیں کہ وہ لمحے فکر کے چراغ بن جاتے ہیں۔ خلافتِ فاروقی کا ایک دل آویز واقعہ اسی فکری در و بست کی تمثیل بن کر سامنے آتا ہے۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ شام کی جانب ایک لشکر کے ہمراہ روانہ ہوئے، لیکن سرحدی مقام’’سرغ‘‘ پر پہنچ کر اطلاع ملی کہ شام میں طاعون کی مہلک وبا پھیل چکی ہے۔ حضرت عمرؓ نے معاملے کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے صحابہ سے مشورہ کیا اور بالآخر واپسی کا فیصلہ فرمایا۔ اس موقع پر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے سوال کیا:’’اے امیر المؤمنین! کیا آپ اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کر رہے ہیں ؟‘‘ حضرت عمرؓ نے اپنے جواب میں جس حکیمانہ فہم اور ایمانی گہرائی کا مظاہرہ کیا، وہ رہتی دنیا تک کے لئے ایک فکری میزان بن گیا۔ آپؓ نے فرمایا: ’’کاش یہ بات تمہارے سوا کوئی اور کہتا! ہاں، ہم اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف جا رہے ہیں !‘‘ اور وضاحت فرمائی: ’’اگر تمہارے پاس ایک اونٹ ہو اور تمہارے سامنے دو چراگاہیں ہوں  ایک سرسبز اور دوسری بنجر  تو تمہارا اونٹ کو سرسبز چراگاہ میں لے جانا بھی اللہ کی تقدیر ہے، اور بنجر زمین کی طرف لے جانا بھی اسی کی تقدیر ہے۔ ‘‘ (صحیح البخاری)
 یہ واقعہ اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے کہ تقدیر ایک جامد زنجیر نہیں، بلکہ وہ ایک ربانی نظام ہے جس میں انسان کو شعور، اختیار اور ارادہ جیسی نعمتوں کے ساتھ باوقار شرکت کا موقع عطا کیا گیا ہے۔ عقل و ایمان کی روشنی میں لیے گئے فیصلے دراصل اسی تقدیر کے ان راستوں کا انتخاب ہوتے ہیں جنہیں ربِ قدیر نے انسان کے لیے مقدر فرمایا ہے۔ اس شعوری انتخاب کا شعور ہی انسان کو محض تقدیر کا محکوم نہیں، بلکہ اس کے رازوں کا شناور بناتا ہے۔ 
 یہ کارخانۂ کائنات ایک عظیم صحیفہ ہے، جس کے ہر ورق پر قدرت کی صناعی کی مہریں ثبت ہیں۔ یہ عالم رنگ و بو ایسی بے شمار جلوہ گاہوں سے مملو ہے، جن کی پشت پر ایک ماورائی نظم و ضبط کارفرما ہے۔ ہر ذرے کی جنبش، ہر شے کی گردش، ہر مخلوق کی زندگی و موت اپنے خالقِ مطلق کے ایک اشارۂ کن کی مرہون منت ہے۔ نہ کوئی شے اپنی مرضی سے طلوع ہوتی ہے، نہ غروب۔ ان سب کے دائرۂ کار متعین، مدتِ حیات محدود اور کردار مقدر ہوتے ہیں۔ ارادۂ الٰہی کے بغیر کوئی قوت، کوئی شے اپنے مدار سے سر ِمو انحراف کی تاب نہیں رکھتی۔ 

یہ بھی پڑھئے:’’کائنات کی ہر چیز اپنے مدار میں تیر رہی ہے‘‘

اس بزمِ ہستی کی ہر شے ایک دن فنا کی وادی میں اترنے والی ہے۔ یہی وہ ازلی و ابدی قانون ہے جو ہر وجود پر نافذ ہے؛ خواہ وہ انسان ہو، حیوان ہو، نباتات ہوں یا جمادات۔ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہر وجود کو اپنے انجام کی آغوش میں جانا ہے۔ زندگی کے سفر میں ہم بارہا اس فنا کا مشاہدہ کرتے ہیں، اور بالآخر خود اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ 
 ہر شے کا عمل، ہر حرکت، ہر وقوعہ اپنے وقتِ مقررہ پر ظہور پزیر ہوتا ہے، نہ ایک لمحہ پہلے، نہ ایک لمحہ بعد۔ یہی وہ اٹل قانونِ ازل ہے جسے ہم تقدیر یا نصیب کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ صرف انسانوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس غیر مرئی نظام کے تحت سانس لے رہا ہے۔ سورج جو ہر روز اپنے تعین کردہ وقت پر مشرق سے نکل کر مغرب میں غروب ہوتا ہے، وہ بھی ایک مقدر کا اسیر ہے۔ اور ایک دن آئے گا جب وہ اپنی سمت بدل دے گا — یہی اس کی تقدیر ہے، جیسا کہ قرآن نے ارشاد فرمایا:
 ’’اور سورج ہمیشہ اپنی مقررہ منزل کے لئے (بغیر رکے) چلتا رہتا، ہے یہ بڑے غالب بہت علم والے (رب) کی تقدیر ہے۔ ‘‘ (سورۃ یٰسین: ۳۸)
 یہاں ایک سوال انسان کے فکری افق پر دستک دیتا ہے: آخر تقدیر ہے کیا؟ کیا یہ ایک لکھی ہوئی کہانی ہے جس کا ہم صرف کردار ہیں؟ یا پھر ہمارے اعمال اس کہانی میں کچھ ترمیم کی صلاحیت رکھتے ہیں ؟ تقدیر ایک ایسا ماورائی نظام ہے جو انسان کی چاہت، تدبیر، حکمت، اور عمل کی تمام پرتوں پر غالب آجاتا ہے، حتیٰ کہ قرآن خود اس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے:
 ’’اور تم وہی کچھ چاہ سکتے ہو جو اللہ چاہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ ‘‘ (سورہ التکویر:۲۹)
 یہی تو وہ نقطۂ حقیقت ہے جہاں انسان کی خود ساختہ خودمختاری دم توڑتی ہے، اور بندگی کی معراج شروع ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیماتِ نبویؐ میں ہر عمل کو مشیتِ الٰہی کے ساتھ مشروط کرنے کی تلقین کی گئی  ’’ان شاء اللہ‘‘ کہنا صرف زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ ایک فکری و روحانی تسلیم کا اعلان ہے۔ 
 تاہم، یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ تقدیر اور اختیار ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں۔ انسان کو فہم، عقل، اور تمیز کی نعمت دی گئی ہے؛ اسے اچھے برے کا شعور بخشا گیا ہے؛ اسے راستوں کا علم عطا کیا گیا وہ چاہے تو خیر کا انتخاب کرے، چاہے تو شر کی راہ لے۔ گویا تقدیر کی کتاب میں کچھ صفحات خالی چھوڑ دیے گئے ہیں، جنہیں انسان کو اپنے عمل سے بھرنا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں دعا کو ایک مؤثر وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔ حدیث کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دعا تقدیر کا رخ موڑ سکتی ہے۔ تقدیر لکھ دی گئی، مگر اس میں ’’اختیار‘‘ کی روشنائی سے انسانی تگ و دو کے آثار بھی رقم کئے گئے تاکہ روزِ جزا کوئی لب شکایت نہ کھول سکے۔ 
 چنانچہ، تقدیر ایک تحریر ہے جو آسمانوں میں ثبت ہے، مگر قلمِ اختیار ہاتھوں میں دے کر رب کائنات نے انسان کو اس بات کا موقع دیا ہے کہ وہ اپنی سرنوشت کو سنوار بھی سکتا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں علم و فلسفہ، عقل و عرفان، دعا و تدبیر سب ایک نقطۂ اتصال پر آ کر رک جاتے ہیں : ’’اللہ کے اذن کے بغیر کچھ نہیں ہوتا، مگر اللہ کی رحمت کے بغیر کچھ بھی نہیں بنتا۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK